Thursday 10 November 2011

یزید پلید:

یزید پلید:
جاننا چاہیے کہ یزید پلیدنے جب قتلِ حسین سے اپنے قلب ناپاک کو راحت پہنچائی تو اللہ تعالیٰ نے اشقیاء کے اس سردار کو جسمانی اذیتوں سے قطع نظر افعال شنیعہ کے ارتکاب میں مبتلا کردیا۔کیوںکہ جسمانی امراض اگرچہ اذیت ناک ہوتے ہیں لیکن اس کے اعمال و افعال کے مقابلہ میں یہ سزا پھر بھی انتہائی ناکافی اور آسان ہوتی اسی لیے اسے ایسے شنیع افعال کے ارتکاب میں مبتلا کردیاگیا جو اس کے لیے ازلی بدبختی کا باعث بنیں اور عذاب الٰہی کی صورت اس بدمآل کی پیشانی سے بے تکلف آشکار ہوجائے۔
تخریب مدینہ منورہ:
ان اعمال شنیعہ میں سے ایک تخریب مدینۂ منورہ ہے۔ اس بدبخت کے ہاتھوں تین روز تک مدینہ طیبہ کے عوام و خواص کی قتل و غارت گری ہوتی رہی ، سات سو صحابہ کو شہید کر دیا گیا،ام المومنین ام سلمہ ؓ کے گھر کو تاراج کیا گیا، تین روز تک نمازیوں کو مسجدِ نبوی ﷺ میں نماز کی سعادت سے محروم رکھا گیا، منبر شریف اور مسجد نبوی میں کتوں اور بلیوں نے ڈیرے جمالیے اورمسجد نبوی میںجو مرجع خلائق و ملائک ہے میں اسی قسم کے دوسرے بہت سے افعال جن کے تحریر کرنے سے قلم لرزہ براندام ہے انجام دیے۔
حرمتِ کعبہ کی پامالی:
اسی طرح حرمتِ کعبہ کی پامالی کا واقعہ ہے جس میں شامیوں نے منجنیقوں سے سنگ باری کی اور حرم محترم کا صحن پتھروں سے پر ہو گیا۔مسجد کے ستون ٹوٹ گئے ،کعبہ کا غلاف جل گیااور وہ پردہ جو کعبہ کے اندر تانا گیا تھا اس کو تنور کا ایندھن بنا دیا گیا۔حتی کہ کچھ روز تک خانہ کعبہ بے لباس رہا اور اہل بیت اللہ ایذاء وہراس کے عالم میں رہے۔
منہیات شرعیہ کو روا رکھنا:
اور انہی افعال شنیعہ میں سے ایک منہیاتِ شرعیہ کی اباحت و حلت ہے۔جن میں زنا و لواطت، شراب نوشی، بہن کی بھائی سے شادی اوراسی قسم کے دوسرے افعال جو کہ صریح کفر ہیں روا رکھے گئے۔
المختصر یہ تیرہ بخت تین سال اور سات مہینے تک انہی عقوبات میں مبتلا رہ کر ۱۵ ربیع الاول کو مقام حمص جو شام کا ایک شہر ہے میں واصل جہنم ہوا۔اس کی عمر انتالیس سال تھی کہ لعنت کا طوق پہنے جہنم رسید ہوا۔
بیان کیا جاتا ہے کہ جس دن حرمت کعبہ کو پامال کیا گیااسی دن اس شقی نے توشۂ آخرت کے طور پر ذخیرہ خسران جمع کر لیا تھااور اس دنیا سے عازم دوزخ ہونے کی تیاری کر لی تھی۔
معاویہ بن یزید بن معاویہ کا خطبہ حکومت:
جب یزید بن معاویہ واصل جہنم ہو چکا تو معاویہ جو یزید کا بیٹا تھاجسے یزید نے اپنی زندگی میں ہی ولی عہد نامزد کر دیا تھا کو تختِ سلطنت پر بٹھایا گیا۔جوں ہی معاویہ بن یزید کو اقتدار ملا۔وہ منبر پر گیا ۔ حمد و ثنائے اللہ جل و علی اورنعت سرور انبیاء علیہ الصلوۃ والثناء کے بعد اس نے کہا:
خلافت اللہ تعالیٰ کا مضبوط آئین ہے اور خلفائے باصفا کا حق ہے۔میرے دادا معاویہ بن ابو سفیان نے علی المرتضیٰ جو کہ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق تھے کے ساتھ نزاع و جدال کا راستہ اختیار کیا۔اس کے بعد میرا باپ جو کہ خلافت کے لیے کسی قسم کا استحقاق نہ رکھتا تھاتخت سلطنت پر متمکن ہو گیا اور اپنی حکومت کو استحکام دینے کے لیے حسین بن علی جو کہ فرزندِ رسول اللہ ﷺ ہیں کے خون سے ہاتھ رنگے۔لیکن بالآخر حالتِ جوانی میں ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔اور اس چند روزہ حکومت کے عوض دائمی عذاب و وبال کو اپنے ہمراہ لے گیا۔اس کے بعد معاویہ بن یزید زار زار رویا اور کہنے لگا:میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ حسین ؑ کے ساتھ جو محاربہ میرے باپ نے کیا وہ انتہائی براتھا۔اس کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ اس نے اولادِ رسول خدا ﷺ کو قتل کیا، شراب نوشی کو مباح قرار دیا، تخریبِ مدینہ منورہ کا مرتکب ہوا اور حرمت کعبہ کی ہتک کو روا رکھا۔میں اس خلافت میں کوئی لذت و راحت نہیں پاتا۔ابو سفیان کی اولاد میں سے جو کوئی اس پر راضی ہو اس کو اپنا امیر بنا لو۔میں اپنی بیعت کے قلادے سے مسلمانوں کی گردنوں کو آزاد کرتا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ منبر سے اتر آیا اور اپنے گھر میں گوشہ نشینی اختیار کر لی اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیااور اسی حالت میں راہی ملک بقا ہوا۔

(شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے عربی رسالہ"سرالشہادتین" کی فارسی شرح "تحریرالشہادتین

No comments:

Post a Comment