Friday 11 November 2011

معاویہ اور بغض ِحسن ابن علی (


 معاویہ اور بغض ِحسن ابن علی (ع

امام حسن (ع) کا معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر نواصب کے اعتراضات


نواصب اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر معاویہ اتنا ہی برا تھا تو امام حسن (ع) نے اس کے ساتھ صلح کیوں کی اور اسے حکومت کیوں سونپ دی۔

انشااللہ ہم اس باب میں اس صلح کی حقیقت سے اپنے قارئین کو آگاہ کرینگے۔

جواب نمبر 1: رسول اللہ (ص) نے بھی کفار کے ساتھ صلح حد یبیہ کی تھی


اگر سوال یہ ہے کہ امام حسن (ع) نے معاویہ کی ساتھ صلح کیوں کی تو ہمارا سوال ہے کہ رسول اللہ (ص) نے کفار ِمکہ کے ساتھ صلح کیوں کی تھی جو کہ صلح حد یبیہ کے نام سے مشہور ہے؟ کفار ِمکہ کے مکار و بدکار ہونے میں کسی کو شک نہیں لیکن پھر بھی رسول اللہ (ص) نے ایسے بدکار لوگوں سے صلح فرمائی۔ جس طرح رسول اللہ (ص) کی کفار ِمکہ کے ساتھ صلح سے ان لوگوں کے مکر، بدکرداری اور کفر کو نہیں چھپایا جاسکتا بالکل اسی طرح امام حسن (ص) کی معاویہ کے ساتھ صلح سے معاویہ کی ظالمانہ اور منافقانہ کاروائیوں کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ نواصب رسول اللہ (ص) سے کفار ِمکہ کے ساتھ صلح میں جو صفائی پیش کرینگے ہم وہی صفائی امام حسن (ع) کی معاویہ کے ساتھ صلح کے سلسلے میں پیش کرنے کو تیار ہیں۔

جواب نمبر 2: رسول اللہ (ص) بنی امیہ کو اپنے منبر پر دیکھ کر غمگین ہوگئے تھے


ہم اہل ِسنت کی مندرجہ ذیل کتابوں پر انحصار کررہے ہیں:

1۔ سنن ترمذی، باب التفسیرالقرآن، سورۃ القدر، ج 5 ص 444
2۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 21
3۔ اسدالغابہ، ج 2 ص 14٫
4۔ تاریخ ابن عساکر، ج 4 ص 228
5۔ مسدراک الحاکم، ج 3 ص 170

سنن ترمذی کی روایت ملاحظہ ہو:

قام رجل إلى الحسن بن علي بعد ما بايع معاوية فقال سودت وجوه المؤمنين أو يا مسود وجوه المؤمنين فقال لا تؤنبني رحمك الله فإن النبي صلى الله عليه و سلم أري بني أمية على منبره فساءه ذلك فنزلت { إنا أعطيناك الكوثر } يا محمد يعني نهرا في الجنة ونزلت { إنا أنزلناه في ليلة القدر * وما أدراك ما ليلة القدر * ليلة القدر خير من ألف شهر } يملكها بنو أمية يا محمد

جب حسن بن علی نے معاویہ کے ساتھ صلح کی تو ایک شخص اٹھا اور بولا:'آپ نے مومنین کے منہ کالے کردیئے'۔ حسن نے جواب دیا، مجھ سے پریشان نہ ہو، رسول اللہ (ص) نے خواب میں دیکھا تھا کہ بنی امیہ منبروں پر اچھل رہے ہونگے جسے دیکھ کر رسول اللہ (س) بہت غمگین ہوگئے اور پھر "إنا أعطيناك الكوثر" کا نزول ہوا۔ جس کا مطلب ہے بہشت میں موجود دریا اور پھر نزول ہوا "إنا أنزلناه في ليلة القدر۔ وما أدراك ما ليلة القدر۔ ليلة القدر خير من ألف شهر" یعنی آپ کے بعد بنی امیہ کا راج ہوگا۔


جس طرح رسول اللہ (س) معاویہ کے قبیلے بنی امیہ کے راج کا خواب دیکھ کر غمزدہ ہوگئے لیکن اس بابت چند وجوہات کی بنا پر خاموش رہے اور کسی سے اس کے حل پر گفتگو نہ فرمائی، بالکل اسی طرح امام حسن (ع) بھی چند وجوہات کی بنا پر بنی امیہ کو تخت سپرد کرتے ہوئے خاموش رہے ۔ جس طرح رسول اللہ (ص) کے غمگین ہونے کے باوجود ان کی خاموشی بنی امیہ کی حکومت کو جائز نہیں ٹھہراتی بالکل اسی طرح امام حسن (ع) کی چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر معاویہ سے صلح معاویہ کی حکومت کو جائز نہیں بنا دیتی۔

جواب نمبر 3: امام حسن (ع) نے مسلمانوں کا خون بچانے کی غرض سے صلح کی


ابن عساکر نے لکھا ہے:

قال يا مالك لا تقل ذلك أني لما رأيت الناس تركوا ذلك إلا أهله خشيت أن تجتثوا عن وجه الأرض فاردت أن يكون للدين في الأرض ناعي

جب صلح ہوگئی تو مالک بن ضمیرہ نے حسن بن علی سے کہا کہ آپ نے مومنین کے منہ کالے کردیئے جس پر حسن نے کہا کہ ایسا نہ بول، میں نے دیکھا کہ مسلمان دنیا سے ختم ہوجائینگے۔ میری خواہش ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں موجود رہیں جو لوگوں کو اسلام سمجھائیں۔

تاریخ ابن عساکر، ج 13 ص 280

ابن کثیرنے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 974 (نفیس اکیڈمی کراچی) ذکر ِمعاویہ کے عنوان میں ایک روایت بیان کرتے ہیں:

نعیم بن حماد نے بیان کیا ہے کہ ابن فضیل نے السری بن اسمعیل سے بحوالہ شعبی ہم سے بیان کیا ہے کہ سفیان بن اللیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حسن بن علی مدینہ سے کوفہ آئے تو میں نے ان سے کہا کہ اے مومنین کو ذلیل کرنے والے۔ حسن نے کہا کہ ایسا نہ کہو، میں نے رسول اللہ (ص) کو کہتے سنا کہ شب و روز ختم نہ ہونگے حتیٰ کہ معاویہ بادشاہ بن جائیگا، پس مجھے معلوم ہوگیا کہ اللہ کا حکم ہوکر رہنے والا ہے پس میں نے پسند نہ کیا کہ معاویہ اور میرے درمیاں مسلمانوں کے خون بہائے جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کے دور کہ سلفی عالم ِدین حسن بن فرحان المالکی اپنی کتاب 'قراء ۃ فی کتاب العقائد' ص 72 میں لکھتے ہیں:

صلح الحسن أفضل من تعرضه ومن معه من بقية أهل البيت ومحبيهم لمذبحة ينتهي فيها ذكر أهل البيت !! فصلح الحسن أتاح لهؤلاء المحبين الاختلاط بالناس ونقل أحاديث علي وفقهه وعلمه

حسن کا صلح کرنا ان کے، باقی اہل ِبیت اور ان کے پیروکاروں کے قتل ہوجانے سے زیادہ بہتر تھا جس سے ذکر ِاہل ِبیت اختتام پذیر ہوجاتا۔ حسن کے صلح کرنے سے ان کے پیروکاروں کو لوگوں سے رابطہ کرنے اور حضرت علی کی احادیث، فقہ اور علم بیان کرنے کا موقع مل گیا۔


امام ِوقت یعنی الحسن بن علی (ع)نے جنگ اس وجہ سے نہیں رکوادی کہ ان کی نظروں میں معاویہ خلافت کا اہل تھا بلکہ وہ مسلمانوں کو قتل ِعام سے بچانا چاہتے تھے بالکل اسی طرح جیسے رسول اللہ (ص) نے اس وقت کے حالات و صورتحال میں مسلمانوں کا خون بچانے کے لئے کفار سے صلح کرلی تھی۔ ایک راہنماء کا کام اپنے حاضر اور آئندہ آنے والے پیروکاروں کو مشکل صورتحال میں درست فیصلے کرنے کا سبق دینا ہوتا ہے۔ قارئین خود ہی بتائیں کہ اس سے زیادہ مشکل حالات اور کیا ہوسکتے تھے۔ امام حسن (ع) نے صورتحال کا جائزہ لیا اور وہ راہ اپنائی جس میں دین و مسلمانوں کی بھلائی ہو اور بڑی مصیبت سے بچا جاسکتے۔ اسی بات کو حسن بن فرحان نے 'قراء ۃ فی کتاب العقائد' ص 72 میں یوں بیان کیا ہے:

كما تعلم الناس من الحسن اختيار أخف الضررين

اور لوگوں نے حسن سے سیکھا کہ جب دو مشکلوں میں گھر جائیں تو کم مشکل راہ کو اپنا لیا جائے۔


جواب نمبر 4: امام حسن (ع) نے دباؤ میں آکر صلح کی


ابن عساکر نے نقل کیا ہے:

إلا وان معاوية دعانا إلى أمر ليس فيه عز ولا نصفة فان اردتم الموت رددناه عليه وحاكمناه إلى الله جل وعز بظبا ( 5 ) السيوف وان اردتم الحياة قبلناه واخذنا لكم الرضا فناداه القوم من كل جانب البقية البقية ( 6 ( فلما افردوه امضى الصلح

حسن نے کہا کو لوگوں تمہیں معلوم ہوجائے کہ معاویہ نے جس صلح کی جانب ہمیں دعوت دی ہے جو باعزت ہے نہ انصاف کے بیان پر ہے۔ اگر تم موت کے لئے تیار ہو تو میں یہ دعوت رد کردیتا ہوں اور پھر ہم اپنی تلواروں سے جواب دیں اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ اگر ہمیں زندگی درکار ہے تو ہم اسے قبول کرلیتے ہیں۔ یہ سننے پر ہر جانب سے آواز آئی تقیہ تقیہ۔ جب لوگ حسن کو چھوڑ گئے تو انہوں نے صلح کرلی۔

تاریخ ابن عساکر، ج 13 ص 268

اگرچہ ابن عساکر نے بقیہ بقیہ لکھا ہے لیکن چونکہ یہی روایت امام ذھبی نے سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 269 میں تقیہ تقیہ کے ساتھ بیان کی ہے اس لئے ہم نے بھی ایسا ہی لکھ دیا ہے۔

مندرجہ بالا تقیہ بالکل ویسا ہی تھا جس طرح کا تقیہ رسول اللہ (ص) نے صلح حد یبیہ کے وقت فرمایا تھا۔

جواب نمبر 5: امام حسن (ع) نے کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ فتنہ سے بچنے کے لئے صلح کی


جیسا کہ ہم پہلے ہی بیان کرچکے ہیں کہ حالات اس نہج پر آچکے تھے کہ امام حسن (ع) کو یہی بہتر معلوم ہوا کہ صلح کرلی جائے۔ اس میں امام حسن (ع) کی کمزوری نہیں تھی بلکہ امام ِوقت کے فعل میں حکمت چھپی ہوتی ہے۔ اہل ِسنت کے امام قسطلانی نے صحیح بخاری کی شرح ارشاد الساری، ج 9 ص 190 کتاب الفتن میں لکھا ہے:

حسن نے اقتدارکسی کمزوری کی وجہ سے نہیں چھوڑا بلکہ انہوں نے فتنہ و خونریزی کو دبانے کے لئے صلح کرلی۔

امام ِاہل ِسنت کا قرار اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ آ ئمائے اہل ِسنت کی نزدیک بھی امام حسن (ع) کا فیصلہ مشکلات و مجبوریوں کی بنا پر تھا یعنی معاویہ کی خلافت جائز نہ تھی بلکہ مجبوری کا فائدہ تھی۔

جواب نمبر 5: صلح کرنے میں معاویہ کی نیت صاف نہ تھی


ہم اہل ِسنت کی مندرجہ ذیل کتابوں پر انحصار کرتے ہیں:

1۔ صحیح مسلم، کتاب الامارہ، حدیث 4890
2 مشکات المصابیح از شاہ عبدالحق، ج 2 ص 166
3۔۔ مرقات شرح مشکات از ملا علی قاری، ج 15 ص 341
3۔ منہاج السنہ، ج 1 ص 560
4۔ حجۃ البلاغہ، ج 2 ص 213
5۔ النہایہ، ج 2 ص 109
6۔ مجمع الامثال، ج 2 ص 383 نمبر 4464

صحیح مسلم میں ہم پڑھتے ہیں:

۔۔۔۔ يقول سمعت حذيفة بن اليمان، يقول كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت أسأله عن الشر مخافة أن يدركني فقلت يا رسول الله إنا كنا في جاهلية وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير شر قال ‏"‏ نعم ‏"‏ فقلت هل بعد ذلك الشر من خير قال ‏"‏ نعم وفيه دخن ‏"‏ ‏.‏ قلت وما دخنه قال ‏"‏ قوم يستنون بغير سنتي ويهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر ‏"‏ ۔۔۔۔

حضرت حذیفہ بن الیمان سے روایت ہے کہ لوگ رسول اللہ (ص) سے بھلی باتوں کو پوچھا کرتے تھے اور میں بری باتوں کو پوچھا کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں برائی میں نہ پڑ جاؤں۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ (ص)، ہم جاہلیت اور برائی میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بھلائی دی (یعنی السلام)، تو کیا اب اس کے بعد بھی کوئی برائی ہے؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایا، ہاں لیکن اس میں دھبہ ہے۔ میں نے پوچھا وہ دھبہ کیسا؟ رسول اللہ (ص) نے کہا میرے بعد وہ لوگ ہونگے جو میری سنت پر نہیں چلیں گے اور میرے طریقے کے سوا اور راہ پر چلیں گے ان میں اچھی باتیں بھی ہونگیں اور بری باتیں بھی۔ میں نے عرض کیا کہ کیا پھر اس کے بعد برائی ہوگی؟
رسول اللہ (ص) نے کہا، ہاں ایسے لوگ پیدا ہونگے جو لوگوں کو جہنم کے دروازے کی طرف بلائیں گے، جو ان کی بات سنےگا اس کو جہنم میں ڈالدینگے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ص) ان کوگوں کا حال ہمیں بیان فرمائیے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ ان کا رنگ ہمارے جیسا ہی ہوگا اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ص) کہ اگر میں ایسے زمانے کو پاؤں تو میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہو اور ان کے امام کے ساتھ رہو۔ میں نے پوچھا کہ اگر جماعت اور امام نہ ہوں؟ آپ (ص)نے فرمایا کہ پھر سب فرقوں کو چھوڑدے حتٰی کہ ایک درخت کی جڑ مرتے دم تک دانت سے چباتا رہے۔


اس روایت میں لفظ دخن استعمال کیا گیا ہے جس کی کئی سنی علماء نے وضاحت کی ہے۔ اس روایت کے متعلق نواصب کے امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب المنہاج السنہ میں لکھا ہے:

والخبر الثاني اجتماع الناس لما اصطلح الحسن ومعاوية لكن كان صلحا على دخن

دوسری خبر اس کے متعلق ہے جب لوگ حسن اور معاویہ کی صلح پر جمع ہوگئے تھے لیکن صلح کی بنیاد دھوکے پر تھی


ابن اثیر نے النہایہ میں لکھا ہے:

دخن سے مراد وہ صلح ہے جس میں دل صاف نہ ہوں

شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح مشکات میں لکھا ہے:

دخن سے مراد وہ صلح ہے جس میں دھوکہ اور نفاق ہو۔

امام ابوالفضل المیدانی نے مجمع الامثال میں لکھا ہے:

فاستعير الدَّخَنُ لفَسَاد الضمائر والنيات

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ البلاغہ میں لکھا ہے:

دخن سے مراد وہ صلح ہے جو معاویہ اور حسن ابن علی کے درمیان ہوئی

امام نووی نے صحیح مسلم کی حدیث کی شرح میں لکھا ہے:

قال أبو عبيد وغيره : ( الدخن ) بفتح الدال المهملة والخاء المعجمة ، أصله : أن تكون في لون الدابة كدورة إلى سواد ، قالوا : والمراد هنا أن لا تصفو القلوب بعضها لبعض

دخن وہ رنگ ہے جو حیوانوں میں سیاہی مائل ہوتا ہے اور اس حدیث میں دخن سے مراد وہ دل ہے جو صاف نہ ہو۔


امام ملا علی قاری الحنفی نے شرح مشکات میں لکھا ہے:

وبالخير الثاني ما وقع من صلح الحسن مع معاوية والإجماع عليه وبالدخن ما كان في زمنه من بعض الأمراء كزياد بالعراق

دوسری خبر سے مراد معاویہ اور حسن کے درمیان ہونے والی صلح ہے اور دخن (دھواں یا دھبہ) سے مراد معاویہ کے زمانے کے بعض حکمران ہیں مثل زیاد کے جو عراق میں تھا۔


امام حسن (ع) نواسہ ِ رسول (س) اور جگرگوشہ ِبتول (ع) ہیں، وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کے لئے آیت ِتطہیرنازل ہوئی، وہ جنت میں جوانوں کے سردار ہیں، صلح کے وقت ان کی نیت بالکل صاف تھی جبکہ یہ معاویہ ہی تھا جس کی نیت میں کھوٹ تھا اور جو بعد میں سب پر عیاں ہوگیا معاہدہ کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں، امام حسن (ع) کو قتل کروانے کی صورت میں اور امام حسن(ع) کی موت پر اظہار مسرت کرنے کی صورت میں۔

جواب نمبر 6: معاویہ نے خلافت زور و زبردستی سے حاصل کی


معاویہ نے شاطر چالیں چل کر ایسی صورتحال پیدا کردی تھیں کہ امام حسن (ع) دو باتوں میں سے ایک کو قبول کرنے کے لئے مجبور ہوئے، یا مسلمانوں کی زبردست خونریزی یا پھر صلح ۔ معاویہ نے اپنی فوج کوفہ کے باہر لگادی جبکہ امام حسن (ع) کے لوگوں کو خریدنے کی پوری کوششیں کیں۔ معاویہ نے شام، فلسطین اور دیگر علاقوں سے اپنے کمانڈروں کا اجلاس منعقد کیا جس کے بعد شام کے کمانڈر نے اپنی ساٹھ ہزار کی فوج کے ساتھ امام حسن (ع) کی جانب پیشقدمی شروع کردی (دیکھیئے تاریخ اعثم کوفی، ج 4 ص 153)۔ معاویہ کا امام حسن (ع) کے گرد ساٹھ ہزار کا لشکر بھیجنا صاف بتاتا ہے کہ معاویہ کی نیت امن کی نہیں جنگ کی تھی اور ایسی صورتحال پیدا کرنے کی تھی کہ امام حسن (ع) وہی کرنے پر مجبور ہوجائیں جیسا معاویہ چاہے۔ اپنے اس فعل سے اس نے ایک واضح اشارہ بھیج دیا تھا کہ وہ امام حسن (ع) سے کسی بھی طرح خلافت حاصل کرنا چاہتا تھا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب امام حسن (ع) کے پاس صلح کے سوا کوئی اور راستہ نہ رہا۔ معاویہ کے اس طرز ِعمل پر مولانا سید ابوالاعلٰی مودودی نے خلافت و ملوکیت، ص 15-159 میں ابن کثیر سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

ملوکیت کا آغاز اسی قاعدے کی تبدیلی سے ہوا۔ حضرت معاویہ کی خلافت اس نوعیت کی خلافت نہ تھی کہ مسلمانوں کے بنانے سے وہ خلیفہ بنے ہوں اور اگر مسلمان ایسا کرنے پر راضی نہ ہوتے تو وہ نہ بنتے۔ وہ بہرحال خلیفہ بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے لڑ کر خلافت حاصل کی، مسلمانوں کے راضی ہونے پر ان کی خلافت کا انحصار نہ تھا۔ لوگوں نے ان کو خلیفہ نہیں بنایا وہ خود اپنے زور سے خلیفہ بنے اور جب وہ خلیفہ بن گئے تو لوگوں کے لئے بیعت کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔ اس وقت ان سے بیعت نہ کی جاتی تو اس کا نتیجہ یہ نہ ہوتا کہ وہ اپنے حاصل کردہ منصب سے ہٹ جاتے بلکہ اس کے معنی خونریزی اور بدنظمی کے تھے جسے امن و نظم پر ترجیح نہیں دی جاسکتی تھی۔ اس لیے امام حسن (رض) کی دست برداری (ربیع الاول 41 ہجری) کے بعد تمام صحابہ، تابعین اور علمائے وقت نے ان کی بیعت پر اتفاق کیا اور اس کو عام الجماعت اس بنا پر قرار دیا کہ کم از کم باہمی خانہ جنگی تو ختم ہوئی۔ حضرت معاویہ خود بھی اس پوزیشن کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اپنے زمانہ ِ خلافت کے آغاز میں انہوں نے مدینہ میں تقریر کرتے ہوئے خود فرمایا:

بخدا میں تمہاری حکومت کی زمام ِکار اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس بات سے ناواقف نہ تھا کہ تم میرے بر سر ِاقدار آنے سے خوش نہیں ہو اور اسے پسند نہیں کرتے۔ اس معاملہ میں جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اسے میں خوب جانتا ہوں مگر میں نے اپنی اس تلوار کے زور سے تم کو مغلوب کرلیا ہے ۔۔۔۔اب اگر تم یہ دیکھو کہ میں تمہارا حق پورا پوررا ادا نہیں کررہا ہوں تو تھوڑے پر مجھ سے راضی رہو۔

 خلافت و ملوکیت، ص 158-159

جواب نمبر 7: صلح کرکے امام حسن نے دنیا کو دکھا دیا کہ معاویہ کتنا بڑا جھوٹا اور مکار ہے


صلح کا معاہدہ جن وعدوں کی بنیاد پر ہوا ان میں سےایک شرط یہ تھی کہ معاویہ کے مرنے کے بعد حکومت امام حسن (ع) کو منتقل ہوجائیگی۔ جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری، ج 13 ص 65 میں لکھا ہے:

اني اشترطت على معاوية لنفسي الخلافة بعده

حسن نے کہا کہ معاویہ سے میں نے یہ شرط رکھی ہے کہ معاویہ کے بعد میں حکمران ہونگا۔


اسی طرح نواصب کے امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 80 میں لکھا ہے:

وقد كان معاوية لما صالح الحسن عهد للحسن بالأمر من بعد

جب معاویہ نے حسن سے صلح کی تو معاویہ نے وعدہ کیا کہ اس کے بعد حسن حکمران ہونگے۔


صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق منافق وہ ہے جو وعدہ کرکے مکر جائے۔ اس صلح نے معاویہ کی مکاری اور اس کا بغض ِاہل ِبیت (ع) سب کے سامنے عیاں کردیا جیسا کہ معاویہ نے اپنا وعدہ نہ نبہانے اور اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو حکمران مقرر کرنے کی نیت سے امام حسن (ع) کو ہی قتل کروادیا۔ اس صلح کے ذریعے ہی امت کو معاویہ کا منافقانہ کردار عیاں کروایا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کا سورہ الرعد آیت 25 میں فرمان ہے:

اور جو لو گ الله کا عہد مضبوط کرنے کے بعد توڑ تے ہیں اور اس چیز کو توڑتے ہیں جسے الله نے جوڑنے کا حکم فرمایا اور ملک میں فساد کرتے ہیں ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔

جواب نمبر 8: امام حسن کے مطابق خلافت ان کا حق تھا اور معاویہ چور تھا


شیخ مفتی کمال الدین بن طلحہ الشافعی (متوفی 682 ھ) اپنی کتاب مطالب السئول، ج 2 ص 17 میں جنگ بندی کے بعد امام حسن (ع) نے جو خطبہ دیا لکھا ہے:

اے بندگان ِخدا، تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے میرے نانا کی ذریعے تم لوگوں کی ہدایت کی اور جہالت سے بچایا اور گمراہی کی پستی سے بلند کیااور کفر کی ذلت کی بعد تمہیں عزت بخشی اور قلت کے بعد تمہیں کثرت عطا کی۔ پس، معاویہ نے میرے ساتھ ایسی چیز پر جھگڑا کیا ہے جو میرا حق ہے نہ کہ معاویہ کا ۔ پس میں نے امت کی فلاح و بہبود کی خاطر عفوودرگزر کیا ہے اور تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ میں جس کسی کے ساتھ صلح کرونگا تم بھی کروگے اور جس کسی کے ساتھ میں جنگ کرونگا تم بھی کروگے پس میں نے یہ مصلحت دیکھی ہے کہ میں معاویہ کے ساتھ صلح کرلوں اور جنگ بندی کرلوں۔

امام حسن (ع) کے اس خطبہ سے ثابت ہوا کہ آپ (ع) معاویہ کو خلافت کا اہل و حقدار نہیں سمجھتے تھے بلکہ معاویہ کو ظالم و غاصب سمجھتے تھے لیکن بعض مصلحت کے تحت امام ِوقت نے دشمن سے صلح کرلی بالکل اسی طرح جس طرح رسول اللہ (ص) نے کفار کے ساتھ مصلحت کے تحت صلح کرلی تھی۔ پس، جس طرح کسی کو حق نہیں کہ وہ رسول اللہ (ص) کی صلح پر تنقید کرے بالکل اسی طرح کسی کو حق نہیں کہ وہ رسول اللہ (ص) کے نائب و امام ِوقت حسن (ع) کی صلح پر کسی قسم کی کوئی تنقید کرے اور یہ رنگ دے کہ امام حسن (ع) کی صلح کا مطلب یہ ہوا کہ امام حسن (ع) کے نزدیک معاویہ کوئی بہت نیک و اہل شخص تھا۔

جواب نمبر 9: اہل ِسنت کے عقیدہ کے مطابق گمراہوں کے ساتھ صلح ہوسکتی ہے


اہل ِسنت کی عظیم کتاب الھدایہ، ج 3 ص 133 کتاب الآداب اور شرح الھدایہ، ج 10 ص 217 میں ہم پڑھتے ہیں:

ثم يجوز التقلد من السلطان الجائر كما يجوز من العادل لأن الصحابة تقلده من معاوية والحق كان بيد علي رضي الله تعالى عنه والتابعين تقلدوه من الحجاج وكان جائزا

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور میں صحابہ نے عہدے قبض کیے حالانکہ حق تو علی کے ساتھ تھا۔ اسی طرح اگرچہ حجاج حق پر نہ تھا لیکن پھر بھی تابعین اس کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے۔


ھدایہ کے اس فتویٰ کی رو سے معاویہ اور حجاج دونوں ایک جیسے یعنی ناجائز حکمراں تھے لیکن پھر بھی صحابہ و تابعین نے ایسے ناجائز حکمرانوں سے ملازمت کے معاہدے کیے تو کیا صحابہ نے اس قسم کے معاہدے کرکے گناہ کا ارتکاب کیا؟ اگرصحابہ کا ناجائز معاویہ سے معاہدے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں تو پھر امام حسن (ع) کا معاویہ سے صلح کا معاہدہ کرنے میں کیا برائی ہے؟

جواب نمبر 10: اگر اب بھی صلح کی وجہ سمجھ نہ آئی تو فیصلہ قرآن سے


سورہ انفال آیت 61 میں ہم پڑھتے ہیں:

اور اگر وہ صلح کے لیے مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور الله پر بھروسہ کرو بے شک وہی سننے والا جاننے والا ہے

اس آیت کے متعلق اہل ِسنت اور خاص کر سپاہ ِصحابہ کے دیوبند مسلک کی مایہ ناز کتاب الھدایہ، ج 1 ص 381 میں ہم پڑھتے ہیں:


الإمام أن يصالح أهل الحرب أو فريقا منهم وكان في ذلك مصلحة للمسلمين فلا بأس به لقوله تعالى : { وإن جنحوا للسلم فاجنح لها وتوكل على الله } الأنفال : 61

جب امام کفار کے ساتھ صلح کا ارادہ کرے جب صلح میں مسلمانوں کے لئے کوئی مصلحت ہو، ایسی صلح کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ کا فرمان ہے:
اور اگر وہ صلح کے لیے مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور الله پر بھروسہ کرو بے شک وہی سننے والا جاننے والا ہے


جب امام کو حق حاصل ہے کو وہ اپنی دور اندیشی کی بنا پر مسلمانوں کے لئے بہتری دیکھتے ہوئے دشمن سے صلح کرلے، تو امام حسن (ع) کی صلح پر سوال کس طرح اٹھایا جاسکتا ہے؟

اسی طرح اہل ِسنت کی ایک اور معتبر کتاب یعنی تفسیرلباب التاویل جو کہ تفسیر خاذن کے نام سے مشہور ہے، اس آیت کی تفسیر میں ہم پڑھتے ہیں:

فإن رأى الإمام أن يصالح أعداءه من الكفار وفيه قوة فلا يجوز أن يهادنهم سنة كاملة وإن كانت القوة للمشركين جاز أن يهادنهم عشر سنين ولا تجوز الزيادة عليها اقتداء برسول الله صلى الله عليه وسلم فإنه صالح أهل مكة مدة عشر سنين

اگر امام کفاردشمن سے صلح کرنا چاہے اور امام میں جنگ کرنے کی قوت بھی ہو تو امام سال یا اس سے کم عرصہ کے لئے صلح کرسکتا ہے ۔ اگر قوت مشرکین کے ساتھ ہو تو امام کے لئے جائز ہے کہ وہ دس سال کے عرصہ تک کے لئے صلح کرلے البتہ اس سے زیادہ کے عرصہ کے لئے جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ (ص) نے کفار مکہ سے دس سال کے عرصہ کے لئے صلح فرمائی تھی


امام حسن (ع) رسول اللہ (ص) کے خلیفہ ضرور تھے لیکن ان کی طرح کی قوت حاصل نہ تھی ۔چاند کے دو ٹکڑے کرنے والا نبی کفار کے سامنے ہتھیار ڈالدیتا ہے اور دس سال کے عرصہ تک جنگ نہ کرنے کا ایسا معاہدہ کرلیا جس سے حضرت عمر جیسے شخص کو بھی نبوت میں شک ہونے لگا تھا۔ کیا ہی عجیب بات ہے کہ رسول کے بےشمار جانثار ساتھیوں کا دم بھرنے والے دیکھتے ہیں کہ کس طرح رسول اللہ (ص) ان تمام ساتھیوں کی موجودگی میں اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ کفار سے دس سال تک جنگ نہ کرنے کے معاہدہ کرلیا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اس عمل سے رسول اللہ (ص) کی نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا تو پھر منافقین سے مجبور ہوکر امام حسن (ع) صلح فرماتے ہیں تو ان کی امامت پر حرف کیسے آسکتا ہے!

جواب نمبر 11: طلقاء خلیفہ نہیں بن سکتے


ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 5 س 224 میں ہم پڑھتے ہیں:

عن عمر أنه قال هذا الأمر في أهل بدر ما بقي منهم أحد ثم في أهل أحد ما بقي منهم أحد ثم في كذا وكذا وليس فيها لطليق ولا لولد طليق ولا لمسلمة الفتح شيء

حضرت عمر نے کہا کہ خلافت اہل بدر میں رہےگی اور طلقاء اور ان کی اولادوں کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔


معاویہ نے پریشان ہوکر فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرلیا، ایسے لوگوں کو طلقاء کہا جاتا ہے اور جناب عمر کے مطابق ایسے لوگ خلافت کے اہل نہیں۔ شاہ والی اللہ دہلوی نے ازالت الخفاء، ج 1 ص 25 میں لکھتے ہیں:

جس میں شرائط خلافت نہ ہو وہ گناہ گار ہے

مندرجہ بالا دونوں عبارتوں کا نتیجہ واضح ہے کہ معاویہ خلافت کا اہل نہیں لیکن پھر بھی حکمران بننے کی خواہش کی وجہ سے وہ گنہگار بنا۔ اسی حوالے سے ہم حضرت عائشہ کے الفاظ پڑھتے ہیں کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 131 میں:


اسود بن یزید نے بیان کیا ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے کہا کہ کیا آپ ایسے شخص پر تعجب نہیں کرتیں جو طلقاء میں سے ہے اور خلافت کے بارے میں رسول اللہ (ص) کے اصحاب سے جھگڑا کرتا ہے؟ حضرت عائشہ نے فرمایا اور تم اس بات سے تعجب نہیں کرتے کہ یہ اقتدار ِ الٰہی ہے جسے وہ نیک و بدکار کو دیتا ہے اور اس نے فرعون کو اہل ِمصر پر چار سو سال تک بادشاہ بنایا اور اسی طرح دیگر کفار کو بھی۔

اگر حضرت عائشہ کے یہ الفاظ سن کر اب بھی سپاہ ِصحابہ کے جیسے نواصب معاویہ کے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں تو ان کے کیا ہی کہنے!


معاویہ کو دی گئی بیعت


نواصب کا اعتراض ہے کہ امام حسن (ع) نے معاویہ کو بیعت دے دی تھی لہٰذا معاویہ کی خلافت جائز ہوئی۔

جواب نمبر 1: بیعت کی معنی


بیعت کے اصل معنی عاہدہ کرنے کے ہیں ۔ صلح الحسن میں صلح کی شرائط کا کاغذ پر اتارنا ثابت کرتا ہے کہ ایک مکمل معاہدہ تحریر کیا گیا تھا۔ امام حسن (ع) حکومت ان درج ذیل شرائط کی بنیاد پر منتقل کررہے تھے۔ معاویہ کے دستخط کے ساتھ ہی بیعت مکمل ہوگئی یعنی معاہدہ دونوں فریقین کی مرضی سے پختہ ہوگیا۔ لہٰذا بیعت معاہدہ کے لئے تھی نہ کہ خلافت کے لئے یہی وجہ ہے کہ معاویہ کا شمار خلفائے راشدین میں نہیں ہوتا جبکہ امام جلال الدین سیوطی نے امام حسن (ع) کا شمار خلفائے راشدین میں کیا ہے۔

جواب نمبر 2: نواصب نادانی یا حیلہ کی بنیاد پر صلح کو بیعت کا نام دیتے ہیں


ہم اہل ِسنت کی مندرجہ ذیل کتابوں پر انحصار کرتے ہیں:

1۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 18
2۔ الاتیعاب، ج 1 ص 115
3۔ تھذیب التھذیب، ج 2 ص 259
4۔ مطالب السئول، ج 2 ص 26
5۔ تذکرۃ الخواص، ص 113
6۔ مروج الذھب، ج 3 ص 8
7۔ القعد الفیرد، ج 2 ص 244
8۔ المعارف، ص 92
9۔ سوائق المحرقہ، ج 2 ص 29
10۔ تاریخ بغداد، ج 178 ذکر قیس بن سعد
11۔ اخبار الطوال، ص 118
12۔ منہاج السنہ، ج 1 ص 560

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے:

۔۔۔فصالحه‏۔۔۔ وهو في ذلك هو البار الراشد الممدوح

پس حسن نے معاویہ کے ساتھ صلح کرلی اور یہ صلح قابل ِستائش عمل ہے


علامہ ابن حجر مکی الھیثمی اپنی شیعہ مخالف کتاب السوائق المحرقہ میں لکھتے ہیں

ولما تصالحا كتب به الحسن كتابا لمعاوية صورته
بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما صالح عليه الحسن بن علي رضي الله عنهما معاوية بن أبي سفيان

جب انہوں نے صلح کرلی تو حسن نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس کا مواد یہ تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ یہ صلح حسن بن علی کرتا ہے معاویہ بن ابی سفیان سے


امام ابن عبد البر نے الاستیعاب میں لکھا:

عن الشعبي قال لما جرى الصلح بين الحسن بن علي ومعاوية

شعبی نے بیان کیا ہے کہ جب حسن بن علی اور معاویہ کے درمیاں صلح ہوئی۔۔۔


امام ابن حجرعسقلانی نے تھذیب التھذیب میں لکھا:

معاویہ اور حسن کے درمیاں صلح ربیع الاول سن 41 ہجری میں ہوئی۔

نواصب کا امام ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں لکھا ہے:

والخبر الثاني اجتماع الناس لما اصطلح الحسن ومعاوية لكن كان صلحا على دخن

دوسری خبر اس کے متعلق ہے جب لوگ حسن اور معاویہ کی صلح پر جمع ہوگئے تھے لیکن صلح کی بنیاد دھوکے پر تھی


پس، امام حسن (ع) نے معاویہ سے صلح کی تھی لیکن معاویہ خیل قبیلہ نے معاویہ کی حکومت کو خلافت رنگ دینے اور اس کی حکومت کو جائز قرار دینے کی کوشش میں اس صلح کو بیعت کا رنگ دینا شروع کردیا۔ صلح کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جس سے صلح ہوری ہے اس کی حکومت جائز ہو گئی ورنہ رسول اللہ (ص) کا کفار سے صلح کرنا کیا کفار کی حیثیت کو جائز بنا دیا تھا؟


ناصبی قیاس کہ امام حسن نے معاویہ سے وظیفہ وصول کرکے معاویہ کی خلافت کو تسلیم کرلیا


نواصب کی ہمیشہ سے ہی یہ کوشش رہی کے کہ کسی نہ کسی طرح معاویہ کی ملوکیت کو خلافت کا رنگ دیا جائے اور ایسے دلائل تلاش کئے جائیں کہ جس سے وہ معاویہ کی ملوکیت کو جائز ٹھہرا سکیں ۔ اسی طرح کی ایک ناکام کوشش وہ اس دلیل سے پیش کرنے لگے ہیں کہ چونکہ امام حسن (ع) نے معاویہ کی حکمرانی کے دوران اس سے وظیفہ حاصل کیا لہٰذا امام حسن کی نظر میں معاویہ کی حکمرانی جائز ہوئی۔

جواب نمبر1:


اگر ظالم کسی مظلوم سے اس کا حق چھین لے اور بعد میں اس چھینی ہوئی مقدار سے قسطوں کے طور پر تھوڑا تھوڑا حق واپس مظلوم کو دیتا رہے تو اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ظالم مظلوم کی طرف رحم دل ہوگیا ہے یا پھرمظلوم کا ظالم سے اپنے حق میں سے ملنا والا ذرہ سا حصہ قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ظالم کہ پاس بچ جانے والا باقی مال جائز ہوگیا۔ مقبوضہ فلسطین کی مثال لے لیجئے جہاں ظالم و غاصب اسرایئلیوں نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کرلیا لیکن مظلوم فلسطینیوں سے معاہدہ کے بعد اسرائیل نے فلسطین کی زمین کا کچھ حصہ دوبارہ فلسطینیوں کو دے دیا۔ اسرائیل کی جانب سے غصب شدہ زمیں کا کچھ حصہ واپس فلسطینیوں کو دینے کا مطلب یہ نہیں کہ زمیں کا باقی حصہ جو اسرائیل کے پاس ہے وہ جائز ہوگیا۔ کچھ بھی ہوجائے، اسرائیل ظالم اور فلسطین مظلوم ہی رہینگے۔

جواب نمبر2:


اللہ کے نبی موسی (ع) نے کافر فرعون کے گھر پرورش پائی اور بچپن سے ہی فرعون کے مہیا کیے گئے رزق، مال و متاع پرمنحصر رہے اس کے باوجود نبی نبی ہی رہا اور کافر کافر ہی رہا۔ اسی طرح امام حسن (ع) معاویہ کے دور میں بیت المال سے وظیفہ تسلیم کیا لیکن امام ِحق، امام ِحق ہی رہا اور ظالم ظالم ہی رہا۔

جواب نمبر3:


حضرت یوسف (ع) اللہ کے نبی تھے لیکن وہ ایک کافر بادشاہ کے گھر پر رہے، اس کے گھر کا زرق کھایا اور اس کے مال پر انحصار کیا اور ایک وقت وہ آیا جب کافر بادشاہ نے حضرت یوسف کو غلہ کا نگہبان مقرر کردیا لیکن پھر بھی حضرت یوسف اللہ کے نبی ہی رہے اور وہ بادشاہ کافر ہی رہا۔ اسی طرح اگر امام حسن (ع) نے ظالم بادشاہ سے وظیفہ تسلیم کیا تو اس میں کیا حرج ہے؟ امام امام ہی رہا اور ظالم ظالم ہی۔

جواب نمبر4:


بیت المال معاویہ کی ذاتی ملکیت نہ تھی بلکہ اس کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و بہبود تھا اور اس بیت المال سے معاویہ نے جو کچھ بھی امام حسن کو بھیجا وہ انہوں نے اپنی ضروریات کے لئے رکھا اور باقی غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کے کام میں لائے۔ پس، امام حسن نے ایک غاصب سے غریبوں کا حق حاصل کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ مال انہی لوگوں تک پہنچے جو اس کے حقدار ہیں۔

جواب نمبر5:


علمی جوابات کے بعد آیئے اب حوالہ جات کی بنا پر ناصبی قیاس کا رد کریں جو کہ ناصبیت کے اس قیاس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ امام ِ اہل ِسنت ابو بکر الجصاص الرازی (متوفی 370 ھ)لکھتے ہیں:

حسن بصری، سعید بن جبیر ، شبعی اور تمام تابعین ان ظالم (حکمرانوں) سے وظیفے لیتے تھے لیکن اس بناء پر نہیں کہ وہ ان سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز تصور کرتے تھے بلکہ اس لئے لیتے تھے کہ یہ تو ان کے اپنے حقوق ہیں جو ظالم و فاجر لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ ان سے دوستی کی بنیاد پر یہ کام کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ انہوں نے حجاج سے تلوار کے ذریعے مقابلہ کیا چار ہزار قراء (علماء) نے جو تابعین میں سے بہترین اور فقہاء تھے عبدالرحمن بن محمد بن اشعث کی قیادت میں حجاج سے اھواز کے مقام پر جنگ کی پھر بصرہ اور بعد ازاں کوفہ کے قریب فرات کے کنارے دیر جماجم کے مقامات پر حجاج سے جنگ کی ہے۔ انہوں نے عبد الملک بن مروان کی بیعت توڑ دی تھی ان (اموی حکمرانوں) پر لعنت کرتے اور ان سے تبرا کرتے تھے۔ ان سے پہلے کے لوگوں کا معاویہ کے ساتھ بھی یہی طریقہ تھا جب وہ حضرت علی کی شہادت کے بعد زبردستی حکمران بن گیا حسن اور حسین بھی (معاویہ سے)وظائف لیتے تھے بلکہ معاویہ سے اسی طرح تبرا کرتے تھے جس طرح حضرت علی معاویہ سے تبرا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وفات کے بعد جنت اور رضوان میں لے گیا۔چنانچہ ان (ظالم حکمرانوں) کی طرف سے عہدہ قضاء قبول کرنے اور وظائف لینے میں یہ دلیل نہیں ہے کہ یہ حضرات ان ظالموں سے دوستی رکھتے تھے اور ان کی حکومت کو جائز اعتقاد کرتے تھے۔
احکام القرآن للجصاص ج 1 ، ص81 ، 82 طبع بیروت


معاویہ کا امام حسن کو زہر کے زریعے شہید کروانا


اس بابت ہم نے مندرجہ ذیل کتب ِاہل ِسنت پر انحصار کیا ہے:

1۔ معجم الکبیر الطبرانی، ج 3 ص 119 رقم 2628
2۔ الاستیعاب، ج 1 ص 115
3۔ تذکرۃ الخواص، ص 192
4۔ ربیع الابرار، ج 4 ص 208
5۔ مقاتل الطالبین، ج 1 ص 20
6۔ تاریخ ابن عساکر ، ج 12 ص 284
7۔ تاریخ خمیس، ج 2 ص 294
8۔ حضرت علی، ص 214
9۔ سیرالاولیاء، ص 81 (اردو سائنس بورڈ، لاہور)
10۔ مروج الذھب، ج 3 ص 5
11۔ البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 47
12۔ سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 247
13۔ طبقات الاطباء، ص 153
14۔ البداء والتاریخ، ج 6 ص 5
15۔ شواہد النبوۃ، ص 303 (مکتبہ نبویہ، لاہور)
16۔ تاریخ ابوالفداء، ص 196

سب سے پہلے تو ہم یہ بات واضح کردیں کہ اس بات میں دو رائے نہیں کہ امام حسن (ع) کو ان کی بیوی جعدہ بنت الاشعث نے بھاری رقم کے عوض کسی کے کہنے پر زہر دے کر قتل کرڈالا۔ امام حاکم نے مستدراک، ج 3 ص 173 رقم 4815 پر لکھتے ہیں:

دعامة السدوسي قال سمت ابنة الأشعث بن قيس الحسن بن علي وكانت تحته ورشيت على ذلك مالا

دعامہ السدوسی نے فرمایا کہ الاشعث بن قیس کی بیٹی نے حسن بن علی کو زہر دیا جو کہ ان کی بیوی تھی، اس کام کے لیئے اسے کثیر رقم ملی۔


جہاں تک رہا سوال کہ وہ کون بد بخت دشمن ِاہل ِبیت (ع) تھا جس نے امام حسن (ع) کے کو ان کی بیوی کے ذریعے زہر دے کر قتل کروایا، تو اس متعلق امام ِاہلِسنت طبرانی اپنی کتاب المعجم الکبیر میں لکھتے ہیں:

حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي ، قال : حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا يحيى بن أبي بكير ، حدثنا شعبة ، عن أبي بكر بن حفص ، أن " سعدا والحسن بن علي رضي الله تعالى عنهما ماتا في زمن معاوية رضي الله تعالى عنه ، فيرون أنه سمه " .

محمد بن عبداللہ الحضرمی نے کہا کہ میں نے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بتایا کہ انہیں یحیی بن ابی بکیر نے بیان کیا کہ انہیں شعبہ نے ابی بکر بن حفص سے بیان کیا کہ سعد اور حسن (رض)، دونوں کی اموات معاویہ (رض) کے دور میں واقع ہوئی اور یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس (معاویہ) نے انہیں زہر دلوایا۔


اسی بات کو امامم ابن عبدالبرر نے اپنی کتاب "الاستیعاب" میں یوں بیان کیا ہے:

وقال قتادة وأبو بكر بن حفص سم الحسن بن علي سمته امرأته جعدة بنت الأشعث بن قيس الكندي‏.‏وقالت طائفة كان ذلك منها بتدسيس معاوية إليها وما بذل لها من ذلك وكان لها ضرائر والله أعلم‏

قتادہ اور ابو بکر بن حفص نے بیان کیا ہے کہ حسن بن علی ان کی بیوی جعدہ بنت الاشعث کے زریعے زہر دلوایا گیا۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ معاویہ نے جعدہ کو زہر بھجوایا اور اس زہر کو (حسن) کو دینے پر جعدہ کو نوازا گیا۔


شیخ موفق الدین احمد بن قاسم الخزرجی (متوفی 668) جو کہ ابن ابی اصیبعہ کے نام سے مشہور ہیں اپنی کتاب "طبقات الاطباء" ص 153 میں معاویہ کے ایک خاص معالج ثمامہ بن آثال کا تذکرہ بڑی خصوصیت کے ساتھ کیا ہے۔ یہ معالج عیسائی تھا اور دمشق کا رہنے والا تھا جس کی شہرت کے ڈنکے دور دور تک پٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ ابن ابی اصیبعہ لکھتے ہیں:

وكان ابن أثال خبيراً بالأدوية المفردة والمركبة وقواها وما منها سموم قواتل وكان معاوية يقربه لذلك كثيراً ومات في أيام معاوية جماعة كثيرة من أكابر الناس

ابن آثال مفرد اور مرکب دواؤں کا ماہر اور ان کے اثرات اور طاقتوں کا جاننے والا تھا اور ہلاک کردینے والے مختلف قسم کے زہروں سے بھی واقف تھا اسی وجہ سے معاویہ اس کی بہت قدرو منزلت کرتا تھا۔ معاویہ کے عہد میں اکابرین ِاسلام اور مسلمان امراء کی ایک بڑی جماعت تھی جو اس کے زہر سے ہلاک ہوئے۔


پھر مصنف نے ان اشخاص کے نام بیان کیئے ہیں جنہیں معاویہ نے اپنے اس معالج کے ذریعے زہر دلا کر مار ڈالا جن میں شامل تھے عبدالرحمان بن خالد بن الودلید اور مولا علی (ع) کے خاص صحابی حضرت مالک بن اشتر (رض)۔ پھر ص 156 پر مصنف بحوالہ تاریخ طبری لکھتے ہیں:

الحسن بن علي رضي اللَّه عنهما مات مسموماً في أيام معاوية وكان عند معاوية كما قيل دهاء فدس إلى جعدة بنت الأشعث بن قيس وكانت زوجة الحسن رضي اللَّه عنه شربة وقال لها إن قتلت الحسن زوجتك بيزيد فلما توفي الحسن بعثت إلى معاوية تطلب قوله فقال لها في الجواب أنا أضن بيزيد

حسن بن علی (رض) معاویہ کے عہد میں زہر سے قتل ہوئے۔ معاویہ نے جعدہ بنت الاشعث بن قیس زوجہ حسن (رض) سے ساز باز کر کے حسن کو زہر پلا دیا اور اس سے یہ وعدہ کیا کہ اگر تو حسن کو قتل کردے تو میں تیرا نکاح یزید سے کردونگا۔ جب حسن قتل ہوگئے تو جعدہ نے معاویہ سے عقدہ پورا کرنے کو کہلا ھبیجا جس کے جواب میں معاویہ نے کہا کہ میں یزید کے لیئے ڈرتا ہوں۔


مشہور مورخ مطہر بن طاہر المقدسی اپنی کتاب "البداء والتاریخ" ج 6 ص 5 میں لکھتے ہیں:

أن معاوية دس إلى جعدة بنت الأشعث بن قيس بأن تسم الحسن ويزوجها يزيد فسمته وقتلته فقال لها معاوية إن يزيد منا بمكان وكيف يصلح له من لا يصلح لابن رسول الله وعوضها منه مائة ألف درهم

معاویہ نے جعدہ بنت الاشعث سے خفیہ سازش کی کہ اگر وہ حسن کو زہر دے کر شہید کردے تو وہ اس کا نکاح یزید کے ساتھ کردے گا۔ جب جعدہ نے معاویہ کی ایماء پر حسن کو زہر دے کر قتل کردیا تو معاویہ نے جعدہ کو ایک لاکھ درہم دے کر کہا کہ یزید ہمیں عزیز ہے، کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے کہ جو فرزند ِرسول کے ساتھ ہوا وہی یزید کے ساتھ بھی ہو۔


ایس ایم مبارک علوی کرمانی جو کہ امیر خورد کے نام سے جانے جاتے ہیں اپنی کتاب "سیرالاولیاء" میں لکھتے ہیں:

امیر المومنین حضرت امام حسن کی بیوی جعدہ بنت الاشعث کندی نے امیر معاویہ کے اشار ےسے کسی نہ کسی ترکیب سے موقع پا کر زہر دے دیا۔

شیعہ مخالف سنی عالم ِدین مولانا عبدالرحمان جامی (متوفی 898 ھ) اپنی مشہور کتاب " شواہد النبوۃ" میں لکھتے ہیں:

عام لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ کو حضرت امیر معاویہ کے کہنے پر آپ کی بیوی جعدہ نے زہر دی تھی۔

علامہ اسماعیل بن ابوالفداء اپنے تاریخ میں لکھتے ہیں:

وتوفي الحسن من سم سقته زوجته جعدة بنت الأشعث قيل فعلت ذلك بأمر معاوية

حسن کی موت زہر سے واقع ہویہ جو ان کی بیوی جعدہ بنت الاشعث نے معاویہ کے حکم پر دیا تھا۔


ابن عساکر نے اپے تاریخ میں لکھا:

كان معاوية قد تلطف لبعض خدمه أن يسقيه سما

معاویہ نے اپنے ملازمین کے زریعے ایک مرکب تیار جو حسن کو دی دیاگیا


امام ذہبی نے سیراعلام النبلاء اور امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں واقدی سے روایت کی ہے کہ:

وقد سمعت بعض من يقول‏:‏ كان معاوية قد تلطف لبعض خدمه أن يسقيه سماً‏.

میں نے بعض لوگوں سے سنا کہ معاویہ نے خفیہ طور پر اپنے ایک ملازم کے زریعے حسن کو زہر دلوادیا۔



معاویہ کا حسن ابن علی کی موت کو مصیبت نہ سمجھنا


اب تک بات ہوئی معاویہ کے علی بن ابی طالب (ع) پر لعنت کرنے کی بدعت ایجاد کرنے کے حوالے سے۔ آئیے اب ہم معاویہ کی اہل ِبیت (ع) دشمنی کے مزید شواہد پیش کرتے ہیں۔ معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے بضض رکھ کر اپنے منافق ہونے پر مہر ثبت کی لیکن الحسن بن علی بن ابی طالب (ع) کی شہادت پر خوشی کا اظہار کرنے اور سجدہ ِشکر بجالا کر منافقین کا امام ہونا بھی ثابت کردیا۔

سنن ابو داود، کتاب 32، حدیث 4119:

مقدام بن معدیکرب معاویہ ابن ابنی سفیان کے پاس آئے تو معاویہ بن ابی سفیان نے المقدام بن معدی کرب سے کہا: کیا تمہیں علم ہے کہ الحسن بن علی وفات پا گئے ہیں؟ اس پر مقدام بن معدی کرب نے قرآنی آیت پڑھی انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک آدمی نے کہا: تو کیا تم الحسن کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟ اس پر مقدام نے جواب دیا: "میں اسے مصیبت کیسے نہ جانوں جبکہ رسول ص الحسن کو اپنی گود میں لیتے تھے اور کہتے تھے کہ الحسن مجھ سے ہے جبکہ الحسین علی سے ہیں۔
اس پر بنی اسد کے آدمی نے کہا: الحسن ایک جلتا ہوا انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا۔


اس روایت میں یہ جہاں 'فلاں' (یعنی، ایک آدمی) کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں مراد بذات خود معاویہ ہے جیسا کہ مسند احمد بن حنبل میں معاویہ کا نام مروی ہے، مگر امام ابو داؤد نے اسے 'فلاں' کے لفظ سے تبدیل کر دیا ہے یعنی یہ معاویہ ابن ابنی سفیان ہے جس نے پوچھا کہ تو کیا تم اس [الحسن ابن علی] کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟

علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے سنن ابو داؤد کی شرح لکھی ہے جو کہ 'عون المعبود شرح سنن ابی داؤد' کے نام سے مشہور ہے اور تمام سلفی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ مثلا http://hadith.al-islam.com جو کہ سلفی حضرات کی مستند ترین ویب سائٹس میں شمار ہوتی ہے۔

اس روایت کے ذیل میں عون المعبود میں یہ شرح دی گئی ہے:

فقال له فلان ) وفي بعض النسخ وقع رجل مكان فلان والمراد بفلان هو معاوية بن أبي سفيان رضي الله تعالى عنه والمؤلف لم يصرح باسمه وهذا دأبه في مثل ذلك وقد أخرج أحمد في مسنده من طريق حيوة بن شريح حدثنا بقية حدثنا بحير بن سعد عن خالد بن معدان قال وفد المقدام بن معد يكرب وفيه فقال له معاوية أيراها مصيبة الحديث( أتعدها ) وفي بعض النسخ أتراها أي أنعد يا أيها المقدام حادثة موت الحسن رضي الله تعالى عنه مصيبة والعجب كل العجب من معاوية فإنه ما عرف قدر أهل البيت حتى قال ما قال فإن موت الحسن بن علي رضي الله عنه من أعظم المصائب وجزى الله المقدام ورضي عنه فإنه ما سكت عن تكلم الحق حتى أظهره وهكذا شأن المؤمن الكامل المخلص

۔۔۔ (فقال لہ فلان) اور کچھ جگہ لفظ فلاں کی جگہ لفظ "رجل" استعمال کیا گیا ہے، اور اس فلاں سے مراد معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ تعالی ہیں۔ جیسا کہ مؤلف [امام ابو داؤد] یہ معلوم نہیں ہونے دیتے چونکہ یہ انکی عادت ہے۔ احمد [امام احمد بن حنبل] اپنی مسند میں حیوۃ بن شریح سے بیان کرتے ہیں جو بقیۃ سے اور جو بحیر بن سعد سے اور وہ خالد بن معدان سے بیان کرتے ہیں : “اور معاویہ نے ان سے کہا: تو کیا تم اس [الحسن ابن علی] کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟ ۔۔۔۔

۔۔۔بعض جگہ پر ( أتعدها ) اور بعض جگہ پر (أتراها) یعنی کیا تم دیکھتے ہو ، تصور کرتے ہو الحسن ابن علی کی موت کو ایک مصیبت؟

تعجب پر تعجب (انتہائی تعجب) ہے امیر معاویہ کے اس قول پر۔ انہوں نے اہلبیت کی قدر نہ پہچانی حتی کہ ایسی بات کہہ دی۔ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی موت یقینا بہت بڑی مصیبت تھی اور اللہ حضرت مقدام رضی اللہ عنہ کو جزائے خیر دے اور ان سے راضی ہو کہ انہوں نے کلمہ حق ادا کرنے میں خاموشی اختیار نہ کی اور اسے اعلانیہ کہہ دیا۔ مومن کامل و مخلص کی یہی شان ہے۔ بنو اسد کے شخص نے جو کچھ کہا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رضا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے تھا۔ اُس نے یہ سخت گھٹیا بات اس وجہ سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے کہی تھی کہ (امام حسن کی موجودگی میں) امیر معاویہ کو اپنی خلافت کے زوال کا خوف تھا۔

 عون المعبود، ج 11 ص 128

یہی الفاظ مولانا خلیل احمد صاحب نے بذل المجہود، شرح سنن ابی داؤد میں اسی روایت کی تشریح کرتے ہوئے درج کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

اسدی نے یہ بات معاویہ کی رضا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے کہی تھی۔ جب حضرت مقدام نے اس شخص کی بات سنی جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے امیر معاویہ کی خاطرداری کے لیے کہی تھی، تو حضرت مقدام امیر معاویہ سے کہنے لگے کہ میں یہاں سے آج ہرگز نہ ہلوں گا جب تک آپ کو غصہ نہ دلاؤں اور آپ کو ایسی بات نہ سناؤں جو آپ کو ناپسند ہو جس طرح کہ آپ نے مجھے ایسی بات سنائی جو مجھے پسند نہیں۔

اور برصغیر کے مشہور اہلحدیث عالم دین مولانا وحید الزمان خان صاحب اس روایت کے ذیل میں حاشیہ میں لکھتے ہیں:

حسن کے انتقال پر معاویہ کو یہ کہنا کہ یہ مصیبت نہیں ہے مبنی تھا اوپر تعصب کے علی اور اولاد علی سے۔ راضی ہو اللہ اپنے رسول کے اہل بیت سے اور ہمارا حشر ان کے ساتھ کرے۔ امین۔

روایت میں آگے بیان ہے کہ حضرت مقدام نے امیر معاویہ کو قسم دلا کر پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مردوں کو سونے کا زیور اور ریشم پہننے سے منع نہیں فرمایا اور خدا کی قسم یہ چیزیں آپ کے گھر کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس کی شرح میں صاحبِ عون المعبود فرماتے ہیں:

فَإِنَّ أَبْنَاءَك وَمَنْ تَقْدِر عَلَيْهِ لَا يَحْتَرِزُونَ عَنْ اِسْتِعْمَالهَا وَأَنْتَ لَا تُنْكِر عَلَيْهِمْ وَتَطْعَن فِي الْحَسَن بْن عَلِيّ ‏

آپ کے لڑکے اور گھر کے مرد (یزید وغیرہ) ان اشیاء کے استعمال سے پرہیز نہیں کرتے اور آپ ان پر نکیر نہیں کرتے۔ اور ادھر آپ حسن بن علی پر طعن کرتے ہیں۔


معاویہ کا حسن ابن علی کی موت پر سجدہ ِشکر اور تکبیر ادا کرنا



ہم اہل ِسنت کی مندجہ ذیل معتبر کتابوں پر انحصار کرتے ہیں:

1۔ اخبار الطوال، ص 221
2۔ العقد الفرید، ج 1 ص 225
3۔ تاریخ خمیس، ج 2 ص 294
4۔ حیات الحیوان، ج 1 ص 84
5۔ تذکرۃ الخواص، ص 123
6۔ تاریخ ابی الفداء، ج
7۔ تاریخ ابن خلکان، ج 2 ص 67
8۔ مروج الذھب، ج 3 ص 8
9۔ مقاتل الحسین، ج 1 ص 140
10۔ ربیع الابرار، ج 4 ص 186

علامہ زمخشری اپنی کتاب ربیع الابرار میں لکھتے ہیں:

حسن کی موت کی خبر سن کر معاویہ نے سجدہ ِ شکر ادا کیا

علامہ ابن خلکان اپنی کتاب وافیات الاعیان جو کہ تاریخ ابن خلکان کے نام سے مشہور ہے، میں لکھتے ہیں:

ولما كتب مروان إلى معاوية بشكاته كتب إليه أن أقبل المطي إلى بخبر الحسن ولما بلغه موته سمع تكبيرا من الحضر فكبر أهل الشام لذلك التكبير فقالت فاختة زوجة معاوية أقر الله عينك يا أمير المؤمنين ما الذي كبرت له ؟ قال مات الحسن

جب مروان نے معاویہ کو شکایت تحریر کی، اس نے لکھا کے اسے بتایا گیا ہے کہ حسن کی موت ہوگئی ہے۔ معاویہ نے جب یہ خبر سنی تو انہوں نے تکبیر کہی تو جس پر اہل شام نے بھی تکبیر کہی۔ لہٰذا معاویہ کی زوجہ فاختہ نے کہا: 'اے امیر المومنین، اللہ آپ کو خوش رکھے، آپ نے تکبیر کیوں کہی؟' معاویہ نے جواب دیا: 'حسن کی موت ہوگئی ہے'


علامہ ابو حنیفہ احمد بن داؤد الدینوری اپنی کتاب اخبار الطوال میں لکھتے ہیں:

حضرت حسن کی وفات کی خبر معاویہ کو بھی مل گئی ۔ انہیں عامل ِمدینہ مروان نے اس امر سے مطلع کیا تھا۔ چنانچہ معاویہ نے ابن عباس کو بلوایا۔ ان دنوں ابن عباس شام میں انہیں کے یہاں آئے ہوئے تھے۔ جب وہ ملے تو معاویہ نے حسن کی وفات پر تعزیت بھی کی اور اظہار ِمسرت بھی کیا۔ لہٰذا ابن عباس نے کہا: 'آپ حس کی موت پر خوش نہ ہوں۔ خدا کی قسم ان کی بعد آپ کا بھی چل چلاؤ ہے'۔
 اخبار الطوال (اردو ترجمہ)۔

علامہ ابن عبد ربہ اپنی کتاب العقد الفرید میں لکھتے ہیں:

ولما بلغ معاويةَ موتُ الحسن بن علي خر ساجداً لله ثم أرسل إلى ابن عباس وكان معه في الشام فعزاه وهو مُستبشر

حسن کی موت کی خبر سن کر معاویہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سجدہ ِ شکر ادا کیا۔ پھر انہوں نے ابن عباس کو پیغام بھجوایا اور انہیں بلوایا۔ جب ابن عباس تشریف لائے تو حالانکہ معاویہ نے ان سے حسن کی موت پر تعزیت کی لیکن وہ بہت خوش تھے۔


علامہ کمال الدین دمیری (المتوفی 808 ھ) نے کتاب حیات الحیوان جبکہ علامہ دیار بکری نے کتاب تاریخ خمیس میں اس واقع کو یوں درج کیا ہے:

ابن عباس معاویہ کے پاس آئے تو معاویہ نے کہا: 'کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے خاندان کے ساتھ کیا ہوا ہے؟' ابن عباس نے جواب دیا: 'مجھے کسی بات کا علم نہیں سوائے اس کہ تم بہت خوش ہو اور میں نے سنا تم نے باآواز ِبلند تکبیر کہی'۔ معاویہ نے کہا: 'حسن کی موت ہوگئی ہے

1 comment:

  1. دشمنانِ اھلبیت پر لعنت ۔
    معاویہ کے معنی لُغت میں دیکھیں ۔
    علی کو معاویہ کا بھئ بنانے والے سوچیں ،اللہ اُنکو ھدایت دے یا غضب نازل فرمائے وہ علی کو کس کا بھئ بننا رہے ہیں ۔ کیا جواب دینگے روز حشر کہ ہم نے علی کو کس کا بھائ بنایا ۔ استغفر اللہ ۔

    ReplyDelete