Friday 11 November 2011

ایک جعلی حدیث کے ذریعے یزید کا دفاع کرنے کی کوشش


 ایک جعلی حدیث کے ذریعے یزید کا دفاع کرنے کی کوشش



کیا آپ کو ذاکر نائیک اور اس کا یزید کے لیے "رضی اللہ عنہ" کہنا یاد ہے؟ کیا آپ کو اُس "واحد" دلیل کا علم ہے جو ذاکر نائیک نے اس کے حق میں دی تھی؟ ذاکر نائیک اور دیگر تمام یزید ِپلید کے محبان فقط صیح بخاری میں موجود ایک روایت کو بنیاد بناتے ہوئے یزید جیسے زانی، شرابی، قاتل، فاسق فاجر شخص کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح اپنی رگوں میں ناصبیت کا نجس خون دوڑنے کا ثبوت دیتے ہیں۔ آئیے اللہ کے بابرکت نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور ان لوگوں کے جھوٹ کو اللہ کی مدد سے بے نقاب کرتے ہیں۔

شام کے ناصبیوں کی جھوٹی گھڑی ہوئی روایت


سب کو علم ہے کہ شام کے ناصبی بنی امیہ کے زبردست حمایتی تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک ایسی روایت گھڑی کہ جس سے وہ بنی امیہ کے خلفاء کو جرائم سے پاک کر کے انہیں جنتی بنا سکیں۔ روایت یہ ہے:

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا

خالد بن معدان روایت کرتاہے:عمیر بن الاسود عنسی نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ عبیدہ بن الصامت کے پاس گیا جبکہ وہ حمص شہر کے ساحل سمندر کے قریب ایک مکان میں اپنی زوجہ ام حرام کے ہمراہ قیام پذیر تھے۔ عمیر نے بیان کیا کہ ام حرام نے انہیں بتایا کہ انہوں نے رسول (ص) سے سنا: میری امت کا پہلا لشکر جو بحری جہاد کرے گا، انکے لئے جنت واجب ہو گی۔ اُم حرام نے پوچھا، یا رسول اللہ، میں ان میں شامل ہوں؟ فرمایا ہاں تو ان میں سے ہے۔ پھر رسول ص نے فرمایا، میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر جہاد کرے گا، وہ مغفور(یعنی بخشا بخشایا) ہے۔ ام حرام نے پوچھا، کیا یا رسول اللہ ص میں بھی ان میں سے ہوں گی؟ فرمایا نہیں۔


اس روایت میں موجود نقائص


اس روایت میں چند بڑے نقص ہیں:

1. یہ روایت "خبر ِواحد" ہے اور صرف اور صرف ایک طریقے سے بیان ہوئی ہے۔ اور نہ صرف یہ "خبر ِواحد" ہے بلکہ یہ اُن تمام روایات کے ذخیرے کے خلاف ہے جو کہ پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر کے متعلق پیش آنے والے واقعات کو بیان کر رہی ہیں۔

2. اس روایت کے تمام کے تمام راویوں کا تعلق شام سے ہے جو کہ ناصبیوں کا دارالحکومت تھا اور یہاں سے اہل ِبیت علیہم السلام پر مساجد کے منبر رسول سے 90 سال تک مسلسل گالیاں دی جاتی رہی ہیں۔

3. شام کے ناصبی بنی امیہ کی شان میں جھوٹی روایات گھڑتے تھے تاکہ انکا مقام بلند مسلمانوں کی نگاہ میں بلند کیا جا سکے۔ 

4. ان ناصبیوں کا طریقہ کار آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اگر اہلبیت علیہم السلام کی شان میں کوئی روایت موجود ہو گی، اور اس میں غلطی سے بھی کوئی راوی کوفے کا آ جائے (چاہے وہ ثقہ ہی کیوں نہ ہو) تو یہ اسے یہ کہہ کر فورا رد کر دیتے ہیں کہ کوفے والوں کی گواہی اہلبیت علیہم السلام کے حق میں قبول نہیں کیونکہ یہ انکے حامی تھے۔ مگر جب بات آتی ہے شام کے ناصبیوں اور انکی بنی امیہ کی مدح سرائی کی، تو ہر قسم کی روایت کو چوم کر احترام سے سر پر رکھ لیتے ہیں۔

امام ابن حجرعسقلانی صحیح بخاری کی شرح لکھتے ہوئے اس روایت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

قوله‏:‏ ‏(‏عن خالد بن معدان‏) بفتح الميم وسكون المهملة،والإسناد كله شاميون

یعنی اس روایت کے تمام راوی شامی ہیں۔


ناصبی و منافق ثور بن یزید


اس روایت کا ایک راوی ثور بن یزید ہے۔ اگرچہ اس روایت کے تمام شامی راویوں میں سے کسی ایک میں بھی اہل ِبیت علیھم السلام کی محبت نہیں تھی لیکن یہ ثور بن یزید ان میں سے بدترین شخص ہے۔ ہلسنت کے علم رجال کے بڑے آئمہ میں سے ایک یعنی امام محمد ابن سعد اس ثور بن یزید کے متعلق لکھتے ہیں:

وكان جد ثور بن يزيد قد شهد صفين مع معاوية وقتل يومئذ فكان ثور إذا ذكر عليا، عليه السلام، قال: لا أحب رجلا قتل جدي.

ثور بن یزید کے (شامی) اجداد معاویہ ابن ابی سفیان کے ہمراہ جنگ صفین میں موجود تھے اور اُس جنگ میں(حضرت علی کی فوج کے ہاتھوں) مارے گئے تھے۔ چنانچہ جب بھی یہ ثور علی (ابن ابی طالب) کا نام سنتا تھا تو کہتا تھا: ’میں اُس شخص کا نام سننا پسند نہیں کرتا جس نے میرے اجداد کو قتل کیا ہے‘۔

 طبقات ابن سعد، جلد 7 ص 467

اور امام مالک کبھی بھی اس ثور بن یزید سے روایت نہیں کیا کرتے تھے۔ تبلیغی جماعت کے سربراہ شیخ احمد علی سہارنپوری نے بخاری شریف کی شرح لکھی ہے۔ وہ اس شرح کی جلد1 صفحہ 409 پر لکھتے ہیں:

صر کے شہر پر پہلے حملے والی روایت ثور بن یزید نے بیان کی ہے اور وہ امیر المومنین (علی ابن ابی طالب)سے دشمنی رکھتا تھا۔

اور سب سے بڑھ کر،علم رجال کے انتہائی بڑے عالم حافظ ابن حجرعسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب، جلد 2، صفحہ 33 پر لکھتے ہیں:

ثور بن یزید قدری مذہب رکھتا تھا ۔اس کے اجداد نے صفین میں معاویہ (ابن ابی سفیان) کی طرف سے جنگ لڑی اور وہ اس جنگ میں مارے گئے۔ چنانچہ جب بھی علی (ابن ابی طالب) کا ذکر ہوتا تھا تو وہ کہتا تھا: میں ایسے شخص کو دوست نہیں رکھ سکتا جس نے میرے اجداد کو قتل کیا ہو۔

اور فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: 

ع ثور بن يزيد الحمصي أبو خالد اتفقوا على تثبته في الحديث مع قوله بالقدر قال دحيم ما رأيت أحدا يشك أنه قدري وقال يحيى القطان ما رأيت شاميا أثبت منه وكان الأوزاعي وبن المبارك وغيرهما ينهون عن الكتابة عنه وكان الثوري يقول خذوا عنه واتقوا لا ينطحكم بقرنيه يحذرهم من رأيه وقدم المدينة فنهى مالك عن مجالسته وكان يرمي بالنصب أيضا وقال يحيى بن معين كان يجالس قوما ينالون من علي لكنه هو كان لا يسب قلت احتج به الجماعة ...
 فتح الباری، ج 1 ص 394

رسول اللہ کی گواہی :علی بن ابی طالب سے بغض رکھنے والا منافق ہے



قال ‏ ‏علي ‏ ‏والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد النبي الأمي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إلي ‏ ‏أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ‏

زر کہتے ہیں کہ علی (ابن ابی طالب ) نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جو ایک بیج سے زندگی پیدا کرتا ہے کہ رسول اللہ ص نے مجھے سے وعدہ فرمایا کہ اے علی نہیں کرے گا تجھ سے کوئی محبت سوائے مومن کے، اور نہیں رکھے گا کوئی تجھ سےکوئی بغض سوائے منافق کے۔ 

 صحیح مسلم، حدیث 113

اگر اب بھی علی بن ابی طالب سے کھلا بغض رکھنے والے اس ناصبی و منافق کی روایت اگر کوئی سرآنکھوں پر رکھنا چاہے تو اللہ اُس کا نگہبان اور اسکا حشراسی ثور بن یزید کے ساتھ ہو۔ آمین۔


پہلی بحری جنگ کی اہمیت بالمقابل بیعت رضوان


محترم قارئین، اگر یہ روایت واقعی صحیح ہے تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں نکلا کہ پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملہ کرنے کی اہمیت بیعت ِرضوان کے برابر ہے؟ بلکہ بیعت رضوان کے وقت تو اللہ انکے صرف ایک فعل سے راضی ہوا تھا لیکن بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملہ کرنے کی صورت میں تو جنت اور مغفور ہونے کا وعدہ تو بیعت رضوان سے بھی بہت بڑا ہوا! 

اب بیعت رضوان کی اہمیت خود دیکھئے کہ اللہ خود اسکا ذکر قرآن پاک میں کر رہا ہے۔ پھر اللہ کا رسول (ص) خود اپنے ہاتھوں پر بیعت لے رہے ہیں اور پھر یہ بیعت رضوان ہر مسلمان بچے بچے کی زبان پر عام ہو جاتا ہے۔ صحابہ کا پورا ایک مرتبہ بن جاتا ہے کہ کس نے بیعت رضوان میں شرکت کی اور کس نے نہیں اوربیعت رضوان میں حصہ لینے والے صحابہ کا نام سینکڑوں کتابوں میں سینکڑوں روایات کی صورت میں محفوظ ہو جاتا ہے۔

سوال: پھر بحری جنگ کی روایت جو اہمیت میں بیعت رضوان کے برابر ہے، وہ کیوں صرف اور صرف ایک خاتون بیان کر رہی ہیں؟



کیا آپ کو علم ہے کہ اس پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملے والی روایت صرف اور صرف ایک عورت سے مروی ہے؟ اب چند سوالات یہ اٹھتے ہیں:

1. اگر پہلی بحری جنگ اتنی ہی اہم تھی جتنی کہ بیعت ِرضوان، تو پھر اسکا علم صرف اور صرف ایک عورت کو ہی کیوں تھا؟

2. اور پھر یہ کہانی بھی اُس خاتون سے اُس وقت منسوب کی جاتی ہے جبکہ انکی رحلت ہو چکی ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ خاتون نہ اسکی تصدیق کر سکتی تھیں اور نہ تردید ۔

اگر یہ پہلی بحری جنگ اور قیصر پر شہر پر حملہ کرنے والی روایت اتنی ہی اہم تھی تو پھر کیا یقینی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ:
  • رسول اللہ (ص) اس بحری جنگ میں جنت و مغفور ہونے کی یہ بشارت بار بار صحابہ کو سناتے تاکہ اُن کے دلوں میں اس جنگ میں حصہ لینے کی تمنا زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتی؟
  • اور پھر صحابہ ان جنگوں میں حصہ لینے پرجنت کی بشارت کو اسلامی سلطنت کے کونے کونے سے پھیلا دیتے تاکہ ہر کونے سے مسلمان آ کر جنت حاصل کرتے؟

لیکن نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ اسکے بالکل برعکس:
  • ایک بھی صحابی کو اس جنت کی بشارت کا علم نہیں ہوتا۔
  • اور ایک بھی صحابی اس جنت کی بشارت کو دوسروں تک نہیں پہنچاتا۔
  • حتٰی کہ وہ فوج جو اس پہلی بحری جنگ میں شرکت کرتی ہے، وہ بذات خود ایسی کسی جنت کی بشارت کے متعلق نہیں جانتی تھی۔

اور یہ روایت صرف اور صرف اُس وقت منظرعام پر آتی ہے جب:

  • پہلی بحری جنگ کو انجام پائے ہوئے ہوئے کئی سالوں کا عرصہ گزرگیا تھا۔
  • بلکہ یہ روایت تو قیصر کے شہر پر حملے کے بھی کئی سالوں کا عرصہ گزرجانے کے بعد منظر عام پر لائی گئی کہ جبکہ یہ خاتون صحابیہ ام حرام کا انتقال ہو چکا تھا اور کوئی بھی ایسا شخص زندہ نہیں بچا تھا جو کہ ان شامی راویوں کی کذب بیانی کو جھٹلا پاتا جو وہ صحابیہ ام حرام پر باندھ رہے تھے۔

تاریخ طبری سے سن 28 ہجری کے پہلی بحری جنگ کےمتعلق تمام تر روایات


محترم قارئین، بہت اہم ہے کہ ہم سن 28 ہجری میں پہلی بحری جنگ میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق کتابوں میں موجود تمام روایات پڑھیں۔ اس کے بعد یزید کا کوئی حامی آپ کو کسی قسم کا جھوٹ گھڑ کر دھوکہ نہیں دے سکے گا۔ انشاء اللہ۔

ہم ذیل میں تاریخ طبری سے روایات پیش کرنے جا رہے ہیں۔ اہل ِسنت میں تاریخ میں طبری کی اس کتاب کو ماں کی حیثیت حاصل ہے اور بعد میں لکھی جانی والی کتب زیادہ تر اسی کی روایات پر بھروسہ کرتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔

نوٹ: ذیل کی روایات کا ترجمہ ہم طبری کے مستند ترین انگلش ترجمے سے پیش کر رہے ہیں (اردو میں موجود دارالاشاعت یا نفیس اکیڈمی کا ترجمہ اکثر انتہائی تحریف شدہ یا غلط ہوتا ہے۔ یہ تحریف افسوسناک بات ہے۔ 

پہلی روایت: حضرت عمر کو اس جنت کی بشارت کا کچھ علم نہیں اور نہ ہی وہ پہلی بحری جنگ کی اجازت دیتے ہیں



یدہ اور خالد بیان کرتے ہیں:
حضرت عمر ابن الخطاب کے دور حکومت میں معاویہ ابن ابی سفیان نے اُن کو خط لکھا اور بحری بیڑے کی تیاری کی اجازت طلب کی۔ اور لکھا کہ (روم اسقدر قریب ہے کہ) حمص شہر کی ایک بستی میں وہاں کے لوگ روم کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے کڑکڑانے کی آواز سنتے ہیں۔ (معاویہ نے) حضرت عمر پر اس حد تک دباؤ ڈالا کہ وہ تقریبا اسکی اجازت دینے والے تھے۔ لیکن حضرت عمر نے پھر عمرو بن العاص کو خط لکھا اور کہا کہ وہ انہیں سمندر اور اسکے مسافروں کا حال بیان کریں کیونکہ ان کے دل میں اسکے بارے میں تشویش ہے۔ عمرو بن العاص نے تحریر کیا: ’میں نے بہت سے لوگوں کو کشتیوں میں سوار دیکھا ہے جب وہ کشتی جھکتی ہے تو دل دہلنے لگتا ہے اور جب وہ حرکت کرتی ہے تو حوش و حواس اڑا جاتے ہیں۔ اس (سفر) سے یقین کم رہ جاتا ہے اور شک و شبہ کی زیادتی ہوتی ہے۔ لوگ اس میں اس طرح سوار ہوتے ہیں جیسے ایک کیڑا لکڑی پر سوار ہوتا ہے۔ اگر لکڑی ذرا بھی پلٹ جائے تو کیڑا ڈوب جائے اور اگر سلامتی سے کنارے لگ جائے تو کیڑا حیران ہو کر رہ جائے۔
جب حضرت عمر نے یہ خط پڑھا تو انہوں نے معاویہ ابن ابی سفیان کو لکھا: ’اس ذات کی قسم! جس نے محمد ص کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں سمندر پر کسی مسلمان کو کبھی سوار نہیں کروں گا‘۔ 

تاریخ طبری (انگریزی)، ج 16 سن 28 کے حالات

تبصرہ:


1. سب سے پہلی بات نوٹ کریں کہ رسول اللہ (ص) کی وفات کو ایک طویل عرصہ گذر چکا ہے اور اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے متعلق سرے سے کوئی معلومات ہی نہیں۔ 

2. حضرت ابو بکر کا دور خلافت ڈھائی سال تک رہتا ہے اور اس پورے دور میں ہمیں اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے متعلق کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ بلکہ اس جنت کی بشارتی بحری جنگ کے متعلق ہمیں دور دور تک وہ جوش و جذبہ نظر نہیں آتا جو کہ حضرت ابو بکر نے جیش اسامہ کی روانگی کے وقت دکھایا تھا۔ 

3. پھر حضرت عمر کی خلافت کا طویل عرصہ شروع ہوتا ہے جو دس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس دوران مسلمان فوجیں ایشیا و افریقہ میں ہر طرف روانہ کی جاتی ہیں اور مسلمان فارس ایران کو فتح کر لیتے ہیں اور دوسری طرف افریقہ میں مسلسل آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان دس سالوں میں ہر طرف فوج روانہ ہوتی ہے، اور نہیں ہوتی ہے تو ایک اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے لیے روانہ نہیں ہوتی۔

4. پھر معاویہ ابن ابی سفیان گورنر مقرر ہوتا ہے اور وہ پہلا شخص ہے جو سمندر کے راستے بازنطینی ریاست پر حملہ آور ہونے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ 

مگر معاویہ ابن ابی سفیان خود ایسی کسی بھی جنت کی بشارتی جنگ سے ناواقف ہوتا ہے۔ چنانچہ معاویہ ابن ابی سفیان جب مرکز میں حضرت عمر کو جنگ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے دلائل دینے کی کوشش کرتا ہےتو اس جنت کی مغفور و بخشے جانی والی بحری جنگ کا ذکر نہیں کرتا۔ بلکہ انتہائی مضحکہ خیز اکلوتی دلیل کے طور پربازنطینی سلطنت کے "کتوں کے بھونکنے" اور "مرغیوں کے کڑکڑانے" کا ذکر کرتا ہے۔

چنانچہ حضرت عمر یقینی طور پر ان کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے کڑکڑانے کی مضحکہ خیز دلیل پر کان نہیں دھرتے بلکہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ وہ ایک بھی مسلمان کو اس کے لیے سمندر کے حوالے نہیں کریں گے، دوسرے الفاظ میں ناصبیوں کی منطق کے مطابق حضرت عمر قسم کھاتے ہیں کسی مسلمان کو اس پہلی بشارتی بحری جنگ کے ذریعے جنت میں نہیں جانے دیں گے۔ معاذ اللہ۔

5. کیا یزید ِپلید کے حامی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عمر سمندر کا حال سن کر ڈر گئے تھے؟ یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر کو رسول اللہ (ص) کی اس بشارت پر یقین نہ تھا کہ پہلی بحری جنگ میں شرکت کرنے پر جنت کی بشارت ہے؟

6. جیسا کہ ہم نے پہلے ہی واضح کیا کہ خود معاویہ کو ایسی کسی بشارت کا علم نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاویہ کے علاوہ کوئی ایک بھی صحابی ایسا تھا جس نے اس پورے عرصے میں بحری جنگ کا ذکر کیا؟ خود سوچئیے کہ اگر واقعی پہلی بحری جنگ بیعت رضوان کی طرح اہم ہوتی تو ہزاروں لاکھوں صحابہ میں سے کوئی ایک تو اسکے لیے زبان کھولتا۔

تاریخ طبری سے دوسری روایت


جنادہ بن ابی امیہ ازدی سے روایت ہے:
معاویہ نے حضرت عمر کو خط لکھا اور انہیں بحری جنگ کے لیے یہ کہتے ہوئے اکسایا: ’یا امیر المومنین، شام کی ایک بستی کے لوگ بازنطینی ریاست کے کتوں کے بھونکنے اور انکی مرغیوں کے چلانے کی آوازیں سنتے ہیں کیونکہ یہ بازنطینی ریاست کے یہ لوگ حمص کے ساحل کے بالمقابل ہیں‘۔ اب حضرت عمر اس پر شک کا شکار ہو گئے کیونکہ یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھا جو اس بات کا مشورہ دے رہا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر نے عمرو بن العاص کو لکھا کہ وہ انہیں سمندر کے متعلق بیان کرے۔ عمرو بن العاص نے انہیں لکھا:’یا امیر المومنین، بہت لوگ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ وہاں آسمان اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ وہاں اس طرح سوار ہوتے ہیں، جیسے لکڑی پر کیڑا سوار ہو۔ اگر الٹ پلٹ ہو گئی تو ڈوب جاتے ہیں اور بچ گئے تو صحیح سالم رہتے ہیں‘۔ 


یہ روایت بالکل پہلی والی روایت جیسی ہے۔ بہرحال اس میں واضح کیا گیا ہے کہ حضرت عمر اس بات پر شک کا شکار اس لیے ہوئے کہ یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھا جو کہ اس جنگ کا مشورہ دے رہا تھا اور اسی لیے انہوں نے عمرو بن العاص کو خط لکھا۔

تاریخ طبری سے تیسری روایت


طبری جنادہ بن امیہ، ربی اور المجلد سے روایت کرتے ہیں:

عمر ابن خطاب نے معاویہ کو تحریر کیا: ’میں نے سنا ہے کہ بحر شام (بحیرہ روم) خشکی کے طویل ترین حصہ کے نزدیک ہے اور ہر روز و شب اللہ سے اجازت مانگتا ہے کہ وہ زمین میں سیلاب کی صورت میں آ کر اسے غرق کر دے۔ تو پھر میں اپنی فوجیں کیسے اس کافر چیز میں بھیج دوں؟ خدا کی قسم میرے لیے ایک مسلمان کی جان پوری رومی سلطنت سے زیادہ پیاری ہے۔ چنانچہ تم میری بات کی مخالفت کرنے سے باز آ جاؤ۔ میں تمہیں اس بات کا حکم (پہلے) ہی دے چکا ہوں اور تمہیں علم ہے کہ علاء ابن حضرمی کا میرے ہاتھوں (حکم عدولی) پر کیا حشر ہوا تھا جبکہ میں نے تو اسے ایسے کھلے اور صاف احکامات بھی نہیں دیے تھے‘۔

تبصرہ:
1. پہلی بحری جنگ پر جنت کی بشارت تو رہی ایک طرف، حضرت عمر ابن الخطاب تو معاویہ کو زبردست طریقے سے دھمکیاں دے رہے ہیں۔

2. اگر واقعی ایسی کوئی جنت کی بشارت ہوتی تو پھر کیا لوگ یہ خیال کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر یوں غصہ ہو کر اتنی خطرناک دھمکی خیز الفاظ استعمال کرتے؟

تاریخ طبری سے چوتھی روایت:جبری فوجی بھرتی پر پابندی


امام طبری خالد بن معدان سے روایت کرتے ہیں:

پہلا شخص جس نے بحری جنگ کی، وہ معاویہ ابن ابی سفیان تھے اور یہ حضرت عثمان ابن عفان کا دور تھا۔(اس سے قبل) معاویہ حضرت عمر سے اس کی اجازت مانگتے رہے لیکن انہیں یہ اجازت نہیں مل سکی۔ اور جب عثمان ابن عفان خلیفہ بنے تو معاویہ ان پر بھی اس کے لیے دباؤ ڈالتے رہے حتی کہ (4 سال) بعد حضرت عثمان ابن عفان نے اسے اس کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ میں یہ حکم دیا: ’کسی کو زبردستی فوج میں بھرتی ہونے پر زور نہ دینا اور نہ ہی قرعہ اندازی کروا کر اس میں نکلنے والے ناموں پر جنگ میں شامل ہونے کے لیے زبردستی کرنا بلکہ انہیں خود اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دینا۔ اور جو اس مہم میں جانے کے لیے تمہاری اطاعت اختیار کریں، انکی مدد کرنا‘۔

تبصرہ:


1. حضرت عمر کی پوری دس سالہ خلافت میں معاویہ کو کوئی کامیابی نہیں ملتی کہ وہ انہیں اس پہلی جنت کی بشارتی جنگ کے لیے آمادہ کر سکے۔ 

2. لیکن حضرت عمر کے بعد اب حضرت عثمان ابن عفان بھی اس جنت کی بشارتی جنگ کے لیے تیار نہیں۔ حتی کہ انکی خلافت شروع ہوئے 4 سال کا عرصہ گذر جاتا ہے۔ یعنی حضرت عثمان سن 24 ہجری میں خلیفہ بنے اور یہ پہلی بحری جنگ سن 28 ہجری میں لڑی گئی۔

جن لوگوں نےاسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ان سے ڈھکا چھپا نہیں کہ حضرت عثمان، معاویہ ابن ابی سفیان کے کتنے زیرِاثر تھے کیونکہ انکے مابین قرابت داری تھی۔ لیکن اس پہلی بحری جنگ کے مسئلے پر پھر بھی معاویہ کو حضرت عثمان کو آمادہ کرتے کرتے 4 سال کا عرصہ لگ گیا۔ 

چنانچہ حضرت عثمان ابن عفان نے آخر کار اجازت دے دی، لیکن اب دیکھئے ان شرائط کو جو تعجب خیز ہیں:
  • حضرت عثمان شرط عائد کر رہے ہیں کہ معاویہ اس جنگ کے لیے جبری بھرتیاں نہیں کرے گا۔
  • اب ذرا تصور کیجئے بیعت رضوان کا اور پھر سوچیئے کہ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ جنت کی بشارت کا سن کر لوگ جوق در جوق اسلامی ریاست کے ہر کونے سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اس بشارتی جنگ میں شمولیت کے لیےخود بخود روانہ ہوتے؟

لیکن نہیں، حضرت عثمان پھر بھی ڈر ہے اور وہ اس لیے پابندی عائد کر رہے ہیں کہ جبری فوجی بھرتیاں نہیں کی جائیں۔

اور مرکز سے اس جنت کی بشارتی بحری جنگ میں کتنے ہزاروں صحابہ کی فوج روانہ ہوئی؟ مرکز سے ہزاروں صحابہ کی فوج آمد تو چھوڑئیے، شاید ہی کوئی ایک صحابی مرکز سے اس جنت کے حصول کے لیے آیا ہو۔ اور اس جنگ میں معاویہ کے ساتھ صرف تین چار صحابہ کا نام ملتا ہے۔ ایک عبادہ بن الصامت، ان کی زوجہ ام حرام، اور ابو درداء۔ 

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صحابیہ ام حرام (جن سے یہ شام کے منافق راوی نے یہ جھوٹی روایت انکے مرنے کے بعد منسوب کر دی)، ان کے شوہر عبادہ بن الصامت اس جنگ کے بعد زندہ رہے اور انہیں پوری زندگی ایسی کسی جنت کی بشارت کا علم نہ تھا، بلکہ وہ معاویہ پر اُس کے غلط کاموں کی وجہ سے انتہائی تنقید کرتے تھے، اس متعلق آگے آپ روایات ملاحظہ فرمائیں گے۔


حصہ دوم: کیا کوئی ایسی جنت کی بشارت قیصر کے شہر پر حملے کے متعلق موجود ہے؟




جواب ہے: نہیں۔
  • کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود نہیں جو دور دور تک یہ بتلاتی ہو کہ جن لوگوں نے اس جنگ میں حصہ لیا انہیں ایسی کسی جنت کی بشارت اور مغفور و بخشے جانے کی بشارت کا علم ہو۔
  • چنانچہ ان ہزاروں روایات میں، جو کہ سینکڑوں کتب میں بکھری ہوئی ہیں، کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود نہیں جو اس جنت کی بشارت کا اس پورے عرصے میں ذکر کرتی ہو۔
  • لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

قیصر کے شہر پر پہلے حملے کی تو وہی اہمیت ہے جو کہ بیعت رضوان کی ہے لیکن پھر بھی کسی کو اس بشارت کا علم نہیں۔ حتی کہ وہ فوج جو اس میں حصہ لیتی ہے، اسے بھی دور دور تک اسکا کوئی علم نہیں۔ 


امام طبری نے اس اہم ترین بشارتی جنگ کا بیان کرنے کے لیے صرف ایک سطر کی جگہ دی



اس جنت کی بشارتی جنگ کا کیا ذکر کرنا، کہ امام طبری کہ جنہوں نے اسلامی تاریخ پر سب سے جامع اور طویل کتاب لکھی، انہوں نے اہم ترین بشارتی جنگ کے بیان کو صرف ایک سطر سے زیادہ جگہ نہ دی۔ امام طبری سن 49 ہجری کے حالات میں لکھتے ہیں:

اور یزید بن معاویہ نے روم میں جنگ کی یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گیا۔ ابن عباس و ابن عمر و ابن زبیر و ابو ایوب انصاری اس کے ساتھ تھے۔
 تاریخ طبری، ج 5 ص 222

امام ابن اثیر پنی تاریخ کی مشہور کتاب ’تاریخ کامل‘ میں اس واقعے کی مزید تفصیلات بیان کر رہے ہیں جو تاریخ طبری میں موجود نہیں، لیکن وہ یزید ابن معاویہ کا اصل چہرہ روشنی میں لا رہی ہیں:

في هذه السنة وقيل‏:سنة خمسين سير معاوية جيشًا كثيفًا إلى بلاد الروم للغزاة وجعل عليهم سفيان بن عوف وأمر ابنه يزيد بالغزاة معهم فتثاقل واعتل فأمسك عنه أبوه فأصاب الناس في غزاتهم جوعٌ ومرض شديد فأنشأ يزيد يقول‏:ما إن أبالي بما لاقت جموعهم بالفرقدونة من حمى ومن موم إذا اتكأت على الأنماط مرتفقًا بدير مروان عندي أم كلثوم وأم كلثوم امرأته وهي ابنة عبد الله بن عامر‏.فبلغ معاوية شعره فأقسم عليه ليلحقن بسفيان في أرض الروم ليصيبه

اس سال (سن 49 ہجری) اور کچھ کہتے ہیں کہ سن 50 ہجری میں معاویہ ابن ابی سفیان نے تیاریاں کیں کہ روم کے شہروں اور قصبوں پر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں حملے کیے جائیں۔ چنانچہ معاویہ ابن ابی سفیان نے فوجیں روانہ کیں اور اپنے بیٹے یزید کو بھی حکم دیا کہ وہ اس فوج میں شامل ہو جائے لیکن یزید اس معاملے میں سستی دکھاتا رہا حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان اس معاملے میں خاموش ہو گئے۔ یہ فوج جنگ کے دوران بیماری اور بھوک کا شکار ہو گئی اور جب یزید کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشعار پڑھے: ’مجھے اسکی کیا پرواہ کہ فوج فرقدونہ کے مقام پر بخار اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ میں تو آرام و سکون کے ساتھ اعلی پوشاک میں مروان کے گھر میں ام کلثوم کے ساتھ رہ رہا ہوں‘۔ ام کلثوم بنت عبداللہ ابن عامر، یزید کی بیوی تھی۔ جب معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید کے یہ اشعار سنے تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ یزید کو روم میں سفیان ابن عوف کے پاس ضرور بھیجیں گے تاکہ یزید کو مشکلات کا سامنا کر کے انہیں جھیلنا پڑے۔

 الکامل فی تاریخ ، ج 2 

یزید کے حامیوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کہ کبار صحابہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ایوب انصاری نے اس جنگ میں اس جنت کی بشارت کی وجہ سے شرکت کی



یہ یزید کے حامیوں کا سراسر جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ ایسی کوئی ایک بھی روایت موجود نہیں ہے جو اس جھوٹ کا ذکر کرتی ہو بلکہ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کے بالکل برعکس، اوپر ہم نے امام ابن اثیر کی روایت نقل کی ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے بطور سزا یزید کو روم فوج کے پاس بھیجا تھا۔ یہی روایت آگے بیان کرتی ہے کہ یہ کبار صحابہ (ابن عباس، ابو ایوب انصاری، ابن عمر، ابن زبیر) خود اپنی طرف سے اس جنگ میں نہیں گئے تھے بلکہ معاویہ ابن ابی سفیان نے انہیں یزید کے ہمراہ بھیجا تھا۔

 فبلغ معاوية شعره فأقسم عليه ليلحقن بسفيان في أرض الروم ليصيبه ما أصاب الناس فسار ومعه جمع كثير أضافهم إليه أبوه وكان في الجيش ابن عباس وابن عمر وابن الزبير وأبو أيوب الأنصاري وغيرهم

معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید کے یہ اشعار سنے تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ یزید کو روم میں سفیان ابن عوف کے پاس ضرور بھیجیں گے تاکہ یزید کو مشکلات کا سامنا کر کے انہیں جھیلنا پڑے۔ اور معاویہ نے اسکے ساتھ مزید فوج بھی روانہ کی جس میں ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر اور ابو ایوب انصاری وغیرہ شامل تھے۔


چنانچہ یزید کے حامیوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس، پورے ذخیرہ ِ روایات میں ایک بھی روایت ایسی موجود نہیں ہے جو بتلاتی ہو کہ ان کبار صحابہ نے اس جنگ میں کسی جنت کی بشارتی حدیث کی وجہ سے شرکت کی ہو۔ بلکہ انہیں معاویہ ابن ابی سفیان نے روانہ کیا تھا کیونکہ یہ اُس وقت کا بہت ہی اہم محاذ تھا جیسا کہ مسلم افواج پہلے ہی ایران اور دیگر اہم ممالک کو فتح کر چکی تھیں۔ اور صحابہ کا یہ بذات خود طریقہ تھا کہ وہ ہر ہر اہم محاذ پر خود سےجہاد کے لیے روانہ ہوتے تھے اور اسکا کسی بشارت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر جب مدینہ شہر میں حضرت عثمان کے خلاف بغاوت اٹھ رہی تھی تو بہت سے صحابہ سرحدوں پر جہاد میں مصروف تھے اور مدینہ کے صحابہ نے انہیں خط لکھا کہ اصل جہاد تو یہاں مدینہ میں ہے، چنانچہ وہ لوگ واپس مدینہ آ جائیں۔

واقدی نے محمد بن عبداللہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے:
سن ۳۴ ہجری میں رسول ص کے چند صحابہ نے دیگر اصحابِ رسول (ص) کو خطوط لکھے (جو کہ جہاد کی غرض سے دور دراز علاقوں میں گئے ہوئے تھے) کہ:
’تم لوگ واپس مدینہ چلے آؤ چونکہ اگر تمہیں جہاد ہی کرنا ہے تو جہاد یہاں ہمارےپاس مدینے میں ہی ہے‘۔

تاریخ طبری (انگلش ایڈیشن)، جلد 15، صفحہ 140، سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک پریس۔

ایسے ہی ایک اور خط کے متعلق مزید ایک اور روایت امام طبری نے عبدالرحمن بن یسار سے بیان کی ہے اور وہ اسی جلد کے صفحہ 183 پر موجود ہے۔ 

چنانچہ یہ صحابہ کا عام طریقہ کار تھا کہ وہ سرحدی علاقوں میں جہاد کے لیے جاتے تھے اور اسکا کسی بشارت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ یہ یزید کے حامیوں کا بہت بڑا جھوٹ ہے کہ یہ کبار صحابہ کسی جنت کی بشارت کی وجہ سے اس جنگ میں شریک ہوئے۔ 


ایک اور بہانہ:حضرت ابو ایوب انصاری بڑھاپے میں جنگ میں شامل ہوئے جس سے ثابت ہوا انہیں جنت کی بشارت کا علم تھا


یہ ایک اور لنگڑا اور جھوٹا بہانہ۔ بجائے اسکے کہ وہ کوئی ایک روایت اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے، یہ لوگ اپنے قیاسات کو اپنا بہانہ بناتے ہوئے پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ 

عمار یاسر صحابی نے بھی علی ابن ابی طالب کی طرف سے انتہائی بڑھاپے (90 برس کی عمر میں) جنگ صفین میں معاویہ ابن ابی سفیان کے خلاف جنگ کی تھی اور شہادت پائی تھی۔ 

چنانچہ اب یزید کے حامیوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے کہ وہ فرار ہو سکیں۔ شکر الحمدللہ۔

تاریخ: یزید وہ پہلا شخص نہیں جس نے قیصر کے شہر پر حملہ کیااور نہ ہی یزید نے اسے فتح کیا



آپ نے سنا ہو گا کہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔ ایک جھوٹ سے کئی تضادات پیدا ہوتے ہیں اور تضادات کی وجہ سے یہ جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔ ایک بہت ہی اہم حقیقت جو یزید کے حامیوں کے اس جھوٹے پروپیگنڈے میں دب کر رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ:

1. نہ تو یزید وہ پہلا شخص تھا جس نے قیصر کے شہر پر حملہ کیا۔

2. اور نہ ہی ہی یزید نے قیصر کے اس شہر قسطنطنیہ کو فتح کیا۔

بلکہ یزید صرف قسطنطنیہ کی دیوار تک پہنچ پایا تھا۔ 

پہلی حقیقت: یزید نے قسطنطنہ کو کبھی فتح نہیں کیا



امام طبری لکھتے ہیں:

سن 49 ہجری کے واقعات:
اور یزید ابن معاویہ نے روم میں جنگ کی حتی کہ وہ قسطنطنہ تک پہنچ گیا۔

 تاریخ طبری، ج 5 ص 222

اور وکیپیڈیا میں "قسطنطنیہ کی تاریخ" کے ذیل میں لکھا ہے:

In 674 the Umayyad Caliph Muawiyah I besieged Constantinople under Constantine IV. In this battle,the Umayyads were unable to breach the Theodosian Walls and blockaded the city along the River Bosporus. The approach of winter however forced the besiegers to withdraw to an island 80 miles(130 km) away.

 وکیپیڈیا

اور یہی تاریخ آپ کو ویب سائیٹ roman-empire.net پر ملے گی:

True History tells Arabs never conquered Constantinople, but it were Muslim Turks who conquered it.

 roman-empire.net 

یعنی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ یہ عرب مسلم نہیں تھے جنہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا بلکہ یہ مسلم ترک تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ قسطنطنیہ کو فتح کیا۔

دوسری حقیقت: قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ نہیں ہے


بخاری کی اس روایت میں لفظ "قسطنطنیہ" استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ "قیصرکا شہر" کےالفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یزید کے حامی دعوٰی کرتے ہیں کہ قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ قیصر کی حکومت کئی اہم شہروں پر مشتمل تھی اور مسلمان تو یزید کی پیدائش کے قبل سے ہی ان قیصر کے شہروں پر حملے کر رہے تھے۔

تیسری حقیقت: قیصر کے شہروں پر مسلمانوں کے اُن حملوں کی تاریخ جو یزید سے پہلے کیے گئے


پہلی مسلم فوج جس نے قیصر کے شہر [روم] پر حملہ کیا وہ بذات خود رسول اللہ (ص) نے روانہ کی تھی۔ اسکے کمانڈر صحابی زید بن حارث تھے اور رسول اللہ (ص) نے اس جنگ میں حضرت جعفر طیار، زید بن حارث اور حضرت عبداللہ کی شہادت کی خبر دے دی تھی [قبل اسکے کہ یہ خبر مدینہ پہنچتی]۔ دیکھئیے وکیپیڈیا پر جنگ موتہ پر مضمون:

 وکیپیڈیا، آن لائن لنک

اگر ہم "شہرِ قیصر" سے مراد اسکا دارلخلافہ بھی لیں یعنی شہر حمص تو یہ شہر حمص بھی حضرت عمر ابن الخطاب کے زمانے میں سن 16 ہجری میں فتح ہو گیا تھا۔ اسکے کمانڈر جناب ابو عبیدہ تھے اور صحابی یزید بن ابو سفیان اس فوج میں شامل تھے جبکہ یزید بن معاویہ اس وقت تک پیدا تک نہیں ہوا تھا۔ 

اور اگر ہم بہت زیادہ تخیل سے کام لیتے ہوئے "شہرِ قیصر" سے مراد صرف اور صرف "قسطنطنیہ" بھی لے لیں تب بھی یزید ابن معاویہ سے قبل مسلم فوجیں قسطنطنیہ پر کئی حملے کر چکی تھیں۔ابن کثیر الدمشقی اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں سن 32 ہجری کے واقعات میں لکھتے ہیں: 

اس سال حضرت معاویہ نے بلاد روم سے جنگ کی حتی کہ آپ قسطنطنیہ کے درے تک پہنچ گئے اور آپکی بیوی عاتکہ بھی آپ کے ساتھ تھی۔۔۔۔
البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، سن 32 ہجری کے حالات، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، صفحہ 212 

پھر قسطنطنیہ پر اگلا حملہ عبداللہ ابن ابی ارطاۃ کی سرکردگی میں سن 42 ہجری میں ہوا اور مؤرخین نے اس کو نقل کیا ہے۔

اگلہ حملہ سن 43 ہجری میں بسر بن ارطاۃ کی قیادت میں ہوا۔ ابن کثیر الدمشقی سن 43 ہجری کے حالات میں لکھتے ہیں:

اس سال میں بسر بن ارطاۃ نے بلاد روم سے جنگ کی حتی کہ قسطنطنیہ کے شہر تک پہنچ گیا اور واقدی کے خیال کے مطابق موسم سرما انکے ملک میں گذارا۔۔۔۔
 البدایہ و النہایہ، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، جلد ہشتم، صفحہ 38

اگلا حملہ سن 44 ہجری میں ہوا اور اسکی سرکردگی عبدالرحمن بن خالد بن ولید کر رہے تھے۔ ابن کثیر الدمشقی سن 44 ہجری کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس سال میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید نے بلاد روم کے ساتھ جنگ کی اور مسلمان بھی آپ کے ساتھ تھے اور انہوں نے موسم سرما وہیں گذارا اور اسی میں بسر بن ابی ارطاۃ نے سمندر میں جنگ کی۔ 
 البدایہ و النہایہ، جلد ہشتم، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، صفحہ 42 

اس سے اگلا حملہ سن 46 ہجری میں پھر عبدالرحمن بن خالف بن ولید کی سرکردگی میں ہوا اور انہوں نے موسم سرما بلاد روم میں گذارا ۔بعض کا قول ہے کہ اس میں فوج کا امیر کوئی اور تھا۔ حوالہ: البدایہ و النہایہ، سن 46 ہجری کے حالات، جلد ہشتم، صفحہ 73۔ 
پھر سن 47 ہجری میں مالک بن ہبیرہ کی سرکردگی میں حملہ ہوا ۔ سنن ابو داؤد کے مطابق اسی سن 47 میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید کا انتقال ہو گیا تھا۔
پھر سن 49 میں روم پر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں تین حملے ہو چکے تھے۔ اور ان تین حملوں کے بعد معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم پر زبردستی یزید محاذ تک پہنچتا۔ (دیکھئیے علامہ ابن اثیر کی روایت جو اوپر نقل کی جا چکی ہے)۔

چنانچہ یہ یزید سے قبل قسطنطنیہ پر کیے جانے والے حملوں کی مختصر تاریخ ہے۔ چنانچہ شام کا ناصبی منافق راوی جس نے یہ جھوٹی روایت گھڑی، وہ مسلمانوں کی اس تاریخ سے بے خبر تھا کہ یزید سے قبل مسلمان قسطنطنیہ پر 7 حملے کر چکے تھے۔ 

اس لیے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس جھوٹے شامی راویوں کے پاس نہ عقل تھی اور نہ علم۔ 

یزید کے حامیوں کا انس ابن مالک کی روایت کو بطور ثبوت پیش کرنا



یزید کے حامی الفاظ اور مطالب کو گھما پھرا کر انس ابن مالک کی ذیل کی روایت سے پھر یزید کو جنتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.صحیح بخاری، جلد 4، کتاب 52، روایت 56(انگلش ورژن)۔:

انس روایت کرتے ہیں: (صحابیہ) ام حرام کہتی ہیں کہ ایک دن رسول (ص) میرے گھر میں میرے قریب میں سو ئے اور پھر مسکراتے ہوئے اٹھے۔میں نے پوچھا:یا رسول اللہ (ص) آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ (خواب میں) میرے سامنے پیش کیے گئے جو کہ سمندر پر ایسے سفر کر رہے تھے جیسے بادشاہ اپنے تخت پر۔ اس پر ام حرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول (ص) آپ دعا فرمائیے کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے انکے لیے دعا کی اور دوبارہ سو گئے۔ اور کچھ دیر بعد پھر مسکراتے ہوئے اٹھے۔ اور پھر مسکرانے کی وہی وجہ فرمائی ۔ اور پھر فرمایا کہ تم بھی پہلے بحری بیڑے میں شامل ہو۔ بعد میں ام حرام اپنے شوہر عبادہ بن الصامت کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوئیں اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مسلمانوں نے بحری جنگ میں حصہ لیا جو کہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں روانہ ہوا۔ جب وہ اس سے فارغ ہو کر شام واپس جا رہے تھے، تو راستے میں وہ اپنی سواری کے جانور سے گر کر زخمی ہو گئیں اور یوں آپ کا انتقال ہوا۔ 

چنانچہ یزید کے حامی حضرات کے دعوے کے برعکس اس روایت میں یزید کے لیے یا پہلی بحری جنگ والوں کے لیے کوئی جنت نہیں ہے اور نہ ان کے تمام گناہوں کا بخشے جانا ہے بلکہ یہ روایت تو شامی راویوں کی روایت کی تکذیب کر رہی ہے کیونکہ:

  • اس روایت میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے کہ اس پہلی بحری جنگ میں جانے والوں کے لیے جنت کا وعدہ ہے، جیسا شامی راویوں نے بیان کیا تھا۔
  • اور اس میں یزید کے لیے کوئی ذکر نہیں کہ قیصر کے شہر پر پہلا حملہ کرنے والوں کے تمام گناہ بخشے جائیں گے، جیسا کہ شامی راویوں نے بیان کیا تھا۔

چنانچہ یہ روایت تو بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ شامی راویوں نے اس روایت میں جھوٹ کی ملاوٹ کر کے بنی امیہ کے حرام کا حق ادا کیا۔ نوٹ کریں:
  • شامی راویوں کی روایت کا سب سے اہم حصہ تھا "جنت کی بشارت اور مغفور اور بخشے جانا"۔ مگر انس کی اس روایت میں یہ سب سے اہم حصہ ہی نہیں ملتا۔
  • انس بھانجے تھے ام حرام کے اور اس لیے یہ واقعہ مکمل تفصیل سے بیان کر رہے ہیں لیکن پھر کیسے یہ ممکن ہوا کہ ام حرام اپنے بھانجے کو تو یہ سب سے اہم ترین حصہ بیان نہ کریں لیکن صرف اور صرف ایک نامحرم شامی کو یہ روایت بیان کریں؟
  • چنانچہ انس کو سرے سے ہی اس جنت کی بشارت کا علم نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ جنت حاصل کرنے کے لیے اس جنگ کے لیے روانہ ہوتے ہیں؟ ہے نا حیرت کی بات؟
  • اور انس کسی اور ایک بھی صحابی کو بھی جنت کی اس بشارت کا نہیں بتلاتے ہیں اور یوں مرکز سے ایک بھی صحابی جنت کو حاصل کرنے کے لیے روانہ نہیں ہوتا ہے۔


ام حرام کے شوہر عبادہ بن الصامت کی معاویہ ابن ابی سفیان کے غلط کاموں پر سخت تنقید


صحابی عبادہ بن الصامت جو کہ صحابیہ ام حرام کے شوہر ہیں، نے بذات خود اس پہلی بحری جنگ میں شرکت کی۔ صحابیہ ام حرام کا تو شام واپسی پر سواری کے جانور سے گر کر انتقال ہو گیا، لیکن انکے شوہر عبادہ اسکے بعد بہت عرصے تک زندہ رہے اور انہیں بھی دور دور تک کسی جنت کی بشارت وغیرہ کا علم نہ تھا۔ جنت کی بشارت ایک طرف رہی، یہ صحابی تو معاویہ ابن ابی سفیان کے غلط کاموں کی وجہ سے اُس پر شدید تنقید کرتے رہے۔ 

آئیے صحابی عبادہ بن الصامت کی رائے دیکھتے ہیں معاویہ ابن ابی سفیان کے متعلق:

 لما قَدِم عمرو بن العاص على معاوية وقام معه في شأن عليّ بعد أن جعل له مصر طُعمة قال له‏:‏ إن بأرضك رجلاً له شرَف واسم واللّه إنْ قام معك استهويتَ به قلوبَ الرجال وهو عُبادة بن الصامت‏.‏ فأرسل إليه معاوية‏.‏ فلما أتاه وَسّع له بينه وبين عمرو بن العاص فَجَلس بينهما‏.‏فحَمد اللّهَ معاوية وأثَنى عليه وذكر فضلَ عُبادة وسابقَته وذكر فضلَ عُثمان وما ناله وحضّه على القيام معه‏.‏ فقال عُبادة‏:‏ قد سمعتُ ماِ قلتَ أتدريانِ لمَ جلستُ بينكما في مكانكما قالا‏:‏ نعم لفضلك وسابقتك وشرفك‏.‏ قال‏:‏ لا واللّه ما جلستُ بينكما لذلك وما كنتُ لأجلس بينكما في مكانكما ولكن بينما نحن نسير مع رسول اللّه صلى الله عليه وسلم في غَزاة تَبوك إذ نظر إليكما تسيران وأنتما تتحدثان فالتفت إلينا فقال‏:‏ إذا رأيتموهما اجتمعا ففرقوا بينهما فإنهما لا يجتمعان على خير أبداً‏.‏

جب عمرو بن العاص معاویہ کے پاس گیا اور علی ابن ابی طالب کے مقابلے میں معاویہ کے ساتھ کھڑا ہو گیا کیونکہ معاویہ ابن ابی سفیان نے مصر اس کے حوالے کر دیا تھا۔ عمرو نے معاویہ سے کہا: یہاں ایک شرف و عزت رکھنے والا شخص ہے کہ جو کہ اگر تمہارے ساتھ ہو جائے تو تم لوگوں کے دلوں کو جیت لو گے۔ اور یہ شخص عبادہ بن الصامت ہے۔ چنانچہ معاویہ نے عبادہ بن الصامت کو بلا بھیجا اور انہیں اپنے اور عمرو بن العاص کے درمیان میں بیٹھنے کی جگہ دی۔ پھر معاویہ نے اللہ کی حمد پڑھی اور عبادہ کی تعریف کی اور انکی اسلام کی خدمات کا ذکر کیا، اور پھر حضرت عثمان ابن عفان کی فضیلت بیان کی اور جو کچھ انکے ساتھ ہوا اُس کا ذکر کیا اور چاہا کہ عبادہ اسکے ساتھ قیام پر تیار ہو جائیں۔ عبادہ نے فرمایا: ’جو کچھ تم نے کہا وہ میں نے سنا۔ تمہیں پتا ہے کہ میں کیوں تمہارے اور عمرو بن العاص کے درمیان بیٹھا ہوں؟‘۔ انہوں نے کہا کہ ہاں تمہارے فضل اور سبقت کی وجہ سے۔ اس پر عبادہ نے جواب دیا: ’اللہ کی قسم، میں اس وجہ سے تم دونوں کے درمیان آ کر نہیں بیٹھا ہوں، بلکہ جب ہم جنگ تبوک میں رسول اللہ ص کے ساتھ سفر کر رہے تھے تو رسول اللہ (ص) نے تم دونوں کی طرف دیکھا تھا جب تم باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ پھر رسول اللہ(ص) نے ہماری طرف دیکھا اور ہم سے فرمایا تھاکہ اگر تم ان دونوں کو کبھی اکھٹا دیکھو تو انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دو کیونکہ یہ دونوں کبھی خیر پر اکھٹے نہیں ہو سکتے‘۔ 

 العقد الفرید، جلد ا 

اور امام ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے:

 حدثنا أبو بكر قال حدثنا عبد الوهاب الثقفي عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الاشعث قال : كنا في غزاة وعلينا معاوية ، فأصبنا فضة وذهبا ، فأمر معاوية رجلا أن يبيعها الناس في أعطياتهم ، فتسارع الناس فيها ، فقام عبادة فنهاهم ، فردوها ، فأتى الرجل معاوية فشكا إليه ، فقال معاوية خطيبا فقال : ما بال رجلا يحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث يكذبون فيها عليه ، لم نسمعها ؟ فقام عبادة فقال : والله لنحدثن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية

ابی الاشعث کہتے ہیں: ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: ’کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟‘ اس پر عبادہ نے جواب دیا: ’اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص)کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے‘۔ 

 مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 5، صفحہ 297، روایت 363 (2)۔

اور محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب "تحفہ اثناء عشریہ" میں لکھتے ہیں:

عبادہ بن الصامت شام میں تھے جب انہوں نے دیکھا کہ معاویہ کا ایک کاروان جس میں اونٹ ہی اونٹ تھے، وہ اپنی پشتوں پر شراب کو لیےجا رہے تھے۔ عبادہ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ شراب ہے جو معاویہ نے بیچنے کے مقصد سے بھیجی ہے۔ اس پر عبادہ چاقو لے کر آئے اور اونٹوں پر بندھی رسیوں کو کاٹ دیا حتی کہ تمام شراب بہہ نہ گئی۔ 
تحفہ اثناء عشریہ (فارسی) صفحہ 638

یہی شراب والی روایت تاریخ ابن عساکر (جلد 26، صفحہ 197)اور امام الذہبی کی سیر اعلام النبلاء (جلد 2، صفحہ 10) پر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ ان کتب کے جدید ایڈیشنز میں معاویہ کا نام نکال کر "فلاں۔ فلاں" لکھ دیا گیا ہے۔ بہرحال، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ ان کتابوں میں یہ تو موجود ہے کہ عبادہ بن الصامت نے وہ شراب بہائی تھی جو کہ شام کے حاکم کی ملکیت تھی، اور یہ چیز کافی ہے کیونکہ شام کا حاکم معاویہ ابن ابی سفیان تھا۔ اور شیخ الارنوط نے سیر اعلام النبلاء کے حاشیے میں لکھا ہے کہ یہ روایت "حسن" ہے۔ 

اور علامہ متقی الہندی نے اسی سے ملتی جلتی روایت نقل کی ہے:

عن محمد بن كعب القرظي قال‏:‏ غزا عبد الرحمن بن سهل الأنصاري في زمن عثمان، ومعاوية أمير على الشام، فمرت به روايا خمر تحمل، فقام إليها عبد الرحمن برمحه، فبقر كل رواية منها فناوشه ‏(‏فناوشه‏:‏ ناشه ينوشه نوشا، إذا تناوله وأخذه‏.‏انتهى‏.‏النهاية ‏(‏5/128‏)‏ ب‏)‏ غلمانه حتى بلغ شأنه معاوية، فقال‏:‏ دعوه فإنه شيخ قد ذهب عقله فقال‏:‏ كذب والله ما ذهب عقلي ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن ندخله بطوننا واسقيتنا، وأحلف بالله لئن أنا بقيت حتى أرى في معاوية ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبقرن ‏(‏لأبقرن‏:‏ البقر‏:‏ الشق والتوسعة‏.‏ النهاية ‏(‏3/144‏)‏ ب‏)‏ بطنه أو لأموتن دونه‏.‏

محمد بن کعب القرظی کہتے ہیں: عبدالرحمن بن سہل انصاری نے حضرت عثمان کے دور میں ایک جنگ میں شرکت کی اور اُس وقت معاویہ ابن ابی سفیان شام کا حاکم تھا۔ پھر وہاں سےان کے سامنے سے شراب کے بھرے ہوئے کنستر گذرے۔ اس پر وہ اپنا نیزہ پکڑ کر آگے آئے اور ہر شراب کے کنستر میں انہوں نے نیزہ گھونپ دیا۔ اس پر غلاموں نے مدافعت کی، حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان کو اسکی خبر ہوئی۔ معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ اسے چھوڑ دو کہ یہ بڈھا شخص اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے۔ اس پر عبدالرحمان نے کہا:اللہ کی قسم، یہ (معاویہ) جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے ہرگز اپنے ہوش و حواس نہیں کھوئے ہیں، مگر اللہ کے رسول ص نے ہمیں شراب پینے سے منع کیا تھا۔ اللہ کی قسم اگر میں زندہ رہوں اور مجھے معاویہ وہ کرتے ہوئے نظر آ جائے جس سے رسول ص نے منع کیا تھا، تو پھر یا تو میں معاویہ کی انتڑیوں کو کھول دوں گا یا پھر خود مارا جاؤں گا۔ 

 کنز الاعمال، جلد 5، صفحہ 713، حدیث 13716

یہی روایت ذیل کی اہلسنت کتب میں بھی موجود ہے:
فیض القدیر، جلد 5، صفحہ 462، روایت 7969
تاریخ دمشق، جلد 34، صفحہ 420
اسد الغابہ، جلد 1، صفحہ 699، بہ عنوان عبدالرحمان بن سہل بن زید
الاصابہ، جلد 4، صفحہ 313، روایت 5140

علما ء اہل ِسنت کی گواہی کی بخاری کی روایت یزید کو فائدہ فراہم نہیں کرتی



وقال المهلب في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر انتهى قلت أي منقبة كانت ليزيد وحاله مشهور فإن قلت قال في حق هذا الجيش مغفور لهم قلت لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة

مھلب کا کہنا ہے کہ اس روایت میں معاویہ کے لئے مناقب موجود ہے کیونکہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بحری فتح حاصل کی اور یزید کے لئے بھی کیونکہ اس نے قیصر کے شہر کو فتح کیا۔ میں کہتا ہوں کہ یزید جیسے شخص کے کیا مناقب ہوسکتے ہیں جس کا حال مشہور ہے! اگر تم کہتے ہو کہ رسول اللہ (ص) نے یہ کہا کہ اس لشکر کے لوگوں کے گناہوں کی بخشش ہوگئی تو میں کہونگا کہ یہ ضروری نہیں کہ بغیر کسی استثنا کے ہر ایک فرد اس میں شامل ہو کیونکہ اہل ِعلم (علماء) میں اختلاف نہیں کہ مغفرت مشروط ہے یعنی صرف انہی کے لئے ہے جو اس کے اہل ہوں کیونکہ اگر فتح کے بعد اس لشکر میں سے کوئی شخص بعد میں مرتد ہوگیا ہوتا تو ظاہر ہے وہ ان میں شامل نہ ہوتا جن کی مغفرت ہوچکی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ (اس روایت میں) مغفرت مشروط ہے۔


اسی طرح امام عبدالروف المناوی لکھتے ہیں:

لا يلزم منه كون يزيد بن معاوية مغفورا له لكونه منهم إذ الغفران مشروط بكون الإنسان من أهل المغفرة ويزيد ليس كذلك لخروجه بدليل خاص ويلزم من الجمود على العموم أن من ارتد ممن غزاها مغفور له وقد أطلق جمع محققون حل لعن يزيد

یہ ضروری نہیں کی یزید کی مغفرت ہوجائے کیونکہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تھا، جیسا کہ مغفرت مشروط ہے ان لوگوں کے لئے جو مغفرت کے اہل ہوں جبکہ یزید ایسا نہیں ہے اور خاص دلیل کی بیان پر یزید کا معاملہ استثنا ہے لیکن اگر ہم اس روایت کے سلسلے میں ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں کہ اس میں ہر ایک شخص شامل ہے تو پھر ہمیں ہر اس اس لشکر میں شامل ہر اس شخص کو بھی شامل کرنا پڑے گا جو بعد میں مرتد ہوگیا۔ مزید یہ بھی کہ علماء نے یزید پر لعنت کرنا حلال قرار دیا ہے۔ 

فیض القدیر، ج 3 ص 109 حدیث 2811

امام ابن حجر عسقلانی اسی روایت کی شرح میں مزید دو آئمہ ِاہل ِسنت یعنی علام ابن التین اور علامہ ابن المنیر کے الفاظ پر انحصار کرتے ہیں:

قال المهلب في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر وتعقبه بن التين وبن المنير بما حاصله أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه و سلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم

مھلب کا کہنا ہے کہ اس روایت میں معاویہ کے لئے مناقب موجود ہے کیونکہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بحری فتح حاصل کی اور یزید کے لئے بھی کیونکہ اس نے قیصر کے شہر کو فتح کیا۔
ابن التین اور ابن المنی نے جواب دیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ بغیر کسی استثنا کے ہر ایک فرد اس میں شامل ہو کیونکہ اہل ِعلم (علماء) میں اختلاف نہیں کہ مغفرت مشروط ہے یعنی صرف انہی کے لئے ہے جو اس کے اہل ہوں کیونکہ اگر فتح کے بعد اس لشکر میں سے کوئی شخص بعد میں مرتد ہوگیا ہوتو ظاہر ہے وہ ان میں شامل نہ ہوگا جن کی مغفرت ہوچکی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ(اس روایت میں) مغفرت مشروط ہے۔

 فتح الباری، ج 6 ص 102

علماء ِاہل ِسنت کے بیان کردہ عقیدہ اور پیش کردہ مثال ہمیں مزید اچھی طرح سمجھ آتی ہے جب ہم رسول اللہ (ص) کی یہ حدیث پڑھتے ہیں جو کہ اہل ِسنت کی مشہور کتاب ’مسند ابی یعلٰی‘ ج 7 ص 32 میں درج ہے اور جسے کتاب کا حاشیہ لکھنے والے علامہ حسین سالم اسد نے صحیح قرار دیا ہے:

أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : يا معاذ قال : لبيك يا رسول الله قال : بشر الناس أنه من قال : لا إله إلا الله دخل الجنة

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ’او معاذ‘۔ معاذ نے کہا: ’جی اللہ کے رسول‘۔ رسول اللہ (ص) نے کہا: ’لوگوں کو بتا دو کہ جس کسی نے کہا ’لا الہٰ الااللہ‘ (اللہ کے سوا کوئی معبود 

 ایک جعلی حدیث کے ذریعے یزید کا دفاع کرنے کی کوشش



کیا آپ کو ذاکر نائیک اور اس کا یزید کے لیے "رضی اللہ عنہ" کہنا یاد ہے؟ کیا آپ کو اُس "واحد" دلیل کا علم ہے جو ذاکر نائیک نے اس کے حق میں دی تھی؟ ذاکر نائیک اور دیگر تمام یزید ِپلید کے محبان فقط صیح بخاری میں موجود ایک روایت کو بنیاد بناتے ہوئے یزید جیسے زانی، شرابی، قاتل، فاسق فاجر شخص کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح اپنی رگوں میں ناصبیت کا نجس خون دوڑنے کا ثبوت دیتے ہیں۔ آئیے اللہ کے بابرکت نام سے شروع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور ان لوگوں کے جھوٹ کو اللہ کی مدد سے بے نقاب کرتے ہیں۔

شام کے ناصبیوں کی جھوٹی گھڑی ہوئی روایت


سب کو علم ہے کہ شام کے ناصبی بنی امیہ کے زبردست حمایتی تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک ایسی روایت گھڑی کہ جس سے وہ بنی امیہ کے خلفاء کو جرائم سے پاک کر کے انہیں جنتی بنا سکیں۔ روایت یہ ہے:

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ أَنَّ عُمَيْرَ بْنَ الْأَسْوَدِ الْعَنْسِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّهُ أَتَى عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ وَهُوَ نَازِلٌ فِي سَاحَةِ حِمْصَ وَهُوَ فِي بِنَاءٍ لَهُ وَمَعَهُ أُمُّ حَرَامٍ قَالَ عُمَيْرٌ فَحَدَّثَتْنَا أُمُّ حَرَامٍ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا قَالَتْ أُمُّ حَرَامٍ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا فِيهِمْ قَالَ أَنْتِ فِيهِمْ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ فَقُلْتُ أَنَا فِيهِمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا

خالد بن معدان روایت کرتاہے:عمیر بن الاسود عنسی نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ عبیدہ بن الصامت کے پاس گیا جبکہ وہ حمص شہر کے ساحل سمندر کے قریب ایک مکان میں اپنی زوجہ ام حرام کے ہمراہ قیام پذیر تھے۔ عمیر نے بیان کیا کہ ام حرام نے انہیں بتایا کہ انہوں نے رسول (ص) سے سنا: میری امت کا پہلا لشکر جو بحری جہاد کرے گا، انکے لئے جنت واجب ہو گی۔ اُم حرام نے پوچھا، یا رسول اللہ، میں ان میں شامل ہوں؟ فرمایا ہاں تو ان میں سے ہے۔ پھر رسول ص نے فرمایا، میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر جہاد کرے گا، وہ مغفور(یعنی بخشا بخشایا) ہے۔ ام حرام نے پوچھا، کیا یا رسول اللہ ص میں بھی ان میں سے ہوں گی؟ فرمایا نہیں۔


اس روایت میں موجود نقائص


اس روایت میں چند بڑے نقص ہیں:

1. یہ روایت "خبر ِواحد" ہے اور صرف اور صرف ایک طریقے سے بیان ہوئی ہے۔ اور نہ صرف یہ "خبر ِواحد" ہے بلکہ یہ اُن تمام روایات کے ذخیرے کے خلاف ہے جو کہ پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر کے متعلق پیش آنے والے واقعات کو بیان کر رہی ہیں۔

2. اس روایت کے تمام کے تمام راویوں کا تعلق شام سے ہے جو کہ ناصبیوں کا دارالحکومت تھا اور یہاں سے اہل ِبیت علیہم السلام پر مساجد کے منبر رسول سے 90 سال تک مسلسل گالیاں دی جاتی رہی ہیں۔

3. شام کے ناصبی بنی امیہ کی شان میں جھوٹی روایات گھڑتے تھے تاکہ انکا مقام بلند مسلمانوں کی نگاہ میں بلند کیا جا سکے۔ 

4. ان ناصبیوں کا طریقہ کار آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اگر اہلبیت علیہم السلام کی شان میں کوئی روایت موجود ہو گی، اور اس میں غلطی سے بھی کوئی راوی کوفے کا آ جائے (چاہے وہ ثقہ ہی کیوں نہ ہو) تو یہ اسے یہ کہہ کر فورا رد کر دیتے ہیں کہ کوفے والوں کی گواہی اہلبیت علیہم السلام کے حق میں قبول نہیں کیونکہ یہ انکے حامی تھے۔ مگر جب بات آتی ہے شام کے ناصبیوں اور انکی بنی امیہ کی مدح سرائی کی، تو ہر قسم کی روایت کو چوم کر احترام سے سر پر رکھ لیتے ہیں۔

امام ابن حجرعسقلانی صحیح بخاری کی شرح لکھتے ہوئے اس روایت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

قوله‏:‏ ‏(‏عن خالد بن معدان‏) بفتح الميم وسكون المهملة،والإسناد كله شاميون

یعنی اس روایت کے تمام راوی شامی ہیں۔


ناصبی و منافق ثور بن یزید


اس روایت کا ایک راوی ثور بن یزید ہے۔ اگرچہ اس روایت کے تمام شامی راویوں میں سے کسی ایک میں بھی اہل ِبیت علیھم السلام کی محبت نہیں تھی لیکن یہ ثور بن یزید ان میں سے بدترین شخص ہے۔ ہلسنت کے علم رجال کے بڑے آئمہ میں سے ایک یعنی امام محمد ابن سعد اس ثور بن یزید کے متعلق لکھتے ہیں:

وكان جد ثور بن يزيد قد شهد صفين مع معاوية وقتل يومئذ فكان ثور إذا ذكر عليا، عليه السلام، قال: لا أحب رجلا قتل جدي.

ثور بن یزید کے (شامی) اجداد معاویہ ابن ابی سفیان کے ہمراہ جنگ صفین میں موجود تھے اور اُس جنگ میں(حضرت علی کی فوج کے ہاتھوں) مارے گئے تھے۔ چنانچہ جب بھی یہ ثور علی (ابن ابی طالب) کا نام سنتا تھا تو کہتا تھا: ’میں اُس شخص کا نام سننا پسند نہیں کرتا جس نے میرے اجداد کو قتل کیا ہے‘۔

 طبقات ابن سعد، جلد 7 ص 467

اور امام مالک کبھی بھی اس ثور بن یزید سے روایت نہیں کیا کرتے تھے۔ تبلیغی جماعت کے سربراہ شیخ احمد علی سہارنپوری نے بخاری شریف کی شرح لکھی ہے۔ وہ اس شرح کی جلد1 صفحہ 409 پر لکھتے ہیں:

صر کے شہر پر پہلے حملے والی روایت ثور بن یزید نے بیان کی ہے اور وہ امیر المومنین (علی ابن ابی طالب)سے دشمنی رکھتا تھا۔

اور سب سے بڑھ کر،علم رجال کے انتہائی بڑے عالم حافظ ابن حجرعسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب، جلد 2، صفحہ 33 پر لکھتے ہیں:

ثور بن یزید قدری مذہب رکھتا تھا ۔اس کے اجداد نے صفین میں معاویہ (ابن ابی سفیان) کی طرف سے جنگ لڑی اور وہ اس جنگ میں مارے گئے۔ چنانچہ جب بھی علی (ابن ابی طالب) کا ذکر ہوتا تھا تو وہ کہتا تھا: میں ایسے شخص کو دوست نہیں رکھ سکتا جس نے میرے اجداد کو قتل کیا ہو۔

اور فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: 

ع ثور بن يزيد الحمصي أبو خالد اتفقوا على تثبته في الحديث مع قوله بالقدر قال دحيم ما رأيت أحدا يشك أنه قدري وقال يحيى القطان ما رأيت شاميا أثبت منه وكان الأوزاعي وبن المبارك وغيرهما ينهون عن الكتابة عنه وكان الثوري يقول خذوا عنه واتقوا لا ينطحكم بقرنيه يحذرهم من رأيه وقدم المدينة فنهى مالك عن مجالسته وكان يرمي بالنصب أيضا وقال يحيى بن معين كان يجالس قوما ينالون من علي لكنه هو كان لا يسب قلت احتج به الجماعة ...
 فتح الباری، ج 1 ص 394

رسول اللہ کی گواہی :علی بن ابی طالب سے بغض رکھنے والا منافق ہے



قال ‏ ‏علي ‏ ‏والذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد النبي الأمي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏إلي ‏ ‏أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ‏

زر کہتے ہیں کہ علی (ابن ابی طالب ) نے فرمایا: اُس ذات کی قسم جو ایک بیج سے زندگی پیدا کرتا ہے کہ رسول اللہ ص نے مجھے سے وعدہ فرمایا کہ اے علی نہیں کرے گا تجھ سے کوئی محبت سوائے مومن کے، اور نہیں رکھے گا کوئی تجھ سےکوئی بغض سوائے منافق کے۔ 

 صحیح مسلم، حدیث 113

اگر اب بھی علی بن ابی طالب سے کھلا بغض رکھنے والے اس ناصبی و منافق کی روایت اگر کوئی سرآنکھوں پر رکھنا چاہے تو اللہ اُس کا نگہبان اور اسکا حشراسی ثور بن یزید کے ساتھ ہو۔ آمین۔


پہلی بحری جنگ کی اہمیت بالمقابل بیعت رضوان


محترم قارئین، اگر یہ روایت واقعی صحیح ہے تو پھر کیا اس کا مطلب یہ نہیں نکلا کہ پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملہ کرنے کی اہمیت بیعت ِرضوان کے برابر ہے؟ بلکہ بیعت رضوان کے وقت تو اللہ انکے صرف ایک فعل سے راضی ہوا تھا لیکن بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملہ کرنے کی صورت میں تو جنت اور مغفور ہونے کا وعدہ تو بیعت رضوان سے بھی بہت بڑا ہوا! 

اب بیعت رضوان کی اہمیت خود دیکھئے کہ اللہ خود اسکا ذکر قرآن پاک میں کر رہا ہے۔ پھر اللہ کا رسول (ص) خود اپنے ہاتھوں پر بیعت لے رہے ہیں اور پھر یہ بیعت رضوان ہر مسلمان بچے بچے کی زبان پر عام ہو جاتا ہے۔ صحابہ کا پورا ایک مرتبہ بن جاتا ہے کہ کس نے بیعت رضوان میں شرکت کی اور کس نے نہیں اوربیعت رضوان میں حصہ لینے والے صحابہ کا نام سینکڑوں کتابوں میں سینکڑوں روایات کی صورت میں محفوظ ہو جاتا ہے۔

سوال: پھر بحری جنگ کی روایت جو اہمیت میں بیعت رضوان کے برابر ہے، وہ کیوں صرف اور صرف ایک خاتون بیان کر رہی ہیں؟



کیا آپ کو علم ہے کہ اس پہلی بحری جنگ اور قیصر کے شہر پر حملے والی روایت صرف اور صرف ایک عورت سے مروی ہے؟ اب چند سوالات یہ اٹھتے ہیں:

1. اگر پہلی بحری جنگ اتنی ہی اہم تھی جتنی کہ بیعت ِرضوان، تو پھر اسکا علم صرف اور صرف ایک عورت کو ہی کیوں تھا؟

2. اور پھر یہ کہانی بھی اُس خاتون سے اُس وقت منسوب کی جاتی ہے جبکہ انکی رحلت ہو چکی ہوتی ہے ۔چنانچہ وہ خاتون نہ اسکی تصدیق کر سکتی تھیں اور نہ تردید ۔

اگر یہ پہلی بحری جنگ اور قیصر پر شہر پر حملہ کرنے والی روایت اتنی ہی اہم تھی تو پھر کیا یقینی طور پر ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ:
  • رسول اللہ (ص) اس بحری جنگ میں جنت و مغفور ہونے کی یہ بشارت بار بار صحابہ کو سناتے تاکہ اُن کے دلوں میں اس جنگ میں حصہ لینے کی تمنا زیادہ سے زیادہ پیدا ہوتی؟
  • اور پھر صحابہ ان جنگوں میں حصہ لینے پرجنت کی بشارت کو اسلامی سلطنت کے کونے کونے سے پھیلا دیتے تاکہ ہر کونے سے مسلمان آ کر جنت حاصل کرتے؟

لیکن نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ اسکے بالکل برعکس:
  • ایک بھی صحابی کو اس جنت کی بشارت کا علم نہیں ہوتا۔
  • اور ایک بھی صحابی اس جنت کی بشارت کو دوسروں تک نہیں پہنچاتا۔
  • حتٰی کہ وہ فوج جو اس پہلی بحری جنگ میں شرکت کرتی ہے، وہ بذات خود ایسی کسی جنت کی بشارت کے متعلق نہیں جانتی تھی۔

اور یہ روایت صرف اور صرف اُس وقت منظرعام پر آتی ہے جب:

  • پہلی بحری جنگ کو انجام پائے ہوئے ہوئے کئی سالوں کا عرصہ گزرگیا تھا۔
  • بلکہ یہ روایت تو قیصر کے شہر پر حملے کے بھی کئی سالوں کا عرصہ گزرجانے کے بعد منظر عام پر لائی گئی کہ جبکہ یہ خاتون صحابیہ ام حرام کا انتقال ہو چکا تھا اور کوئی بھی ایسا شخص زندہ نہیں بچا تھا جو کہ ان شامی راویوں کی کذب بیانی کو جھٹلا پاتا جو وہ صحابیہ ام حرام پر باندھ رہے تھے۔

تاریخ طبری سے سن 28 ہجری کے پہلی بحری جنگ کےمتعلق تمام تر روایات


محترم قارئین، بہت اہم ہے کہ ہم سن 28 ہجری میں پہلی بحری جنگ میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق کتابوں میں موجود تمام روایات پڑھیں۔ اس کے بعد یزید کا کوئی حامی آپ کو کسی قسم کا جھوٹ گھڑ کر دھوکہ نہیں دے سکے گا۔ انشاء اللہ۔

ہم ذیل میں تاریخ طبری سے روایات پیش کرنے جا رہے ہیں۔ اہل ِسنت میں تاریخ میں طبری کی اس کتاب کو ماں کی حیثیت حاصل ہے اور بعد میں لکھی جانی والی کتب زیادہ تر اسی کی روایات پر بھروسہ کرتے ہوئے لکھی گئی ہیں۔

نوٹ: ذیل کی روایات کا ترجمہ ہم طبری کے مستند ترین انگلش ترجمے سے پیش کر رہے ہیں (اردو میں موجود دارالاشاعت یا نفیس اکیڈمی کا ترجمہ اکثر انتہائی تحریف شدہ یا غلط ہوتا ہے۔ یہ تحریف افسوسناک بات ہے۔ 

پہلی روایت: حضرت عمر کو اس جنت کی بشارت کا کچھ علم نہیں اور نہ ہی وہ پہلی بحری جنگ کی اجازت دیتے ہیں



یدہ اور خالد بیان کرتے ہیں:
حضرت عمر ابن الخطاب کے دور حکومت میں معاویہ ابن ابی سفیان نے اُن کو خط لکھا اور بحری بیڑے کی تیاری کی اجازت طلب کی۔ اور لکھا کہ (روم اسقدر قریب ہے کہ) حمص شہر کی ایک بستی میں وہاں کے لوگ روم کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے کڑکڑانے کی آواز سنتے ہیں۔ (معاویہ نے) حضرت عمر پر اس حد تک دباؤ ڈالا کہ وہ تقریبا اسکی اجازت دینے والے تھے۔ لیکن حضرت عمر نے پھر عمرو بن العاص کو خط لکھا اور کہا کہ وہ انہیں سمندر اور اسکے مسافروں کا حال بیان کریں کیونکہ ان کے دل میں اسکے بارے میں تشویش ہے۔ عمرو بن العاص نے تحریر کیا: ’میں نے بہت سے لوگوں کو کشتیوں میں سوار دیکھا ہے جب وہ کشتی جھکتی ہے تو دل دہلنے لگتا ہے اور جب وہ حرکت کرتی ہے تو حوش و حواس اڑا جاتے ہیں۔ اس (سفر) سے یقین کم رہ جاتا ہے اور شک و شبہ کی زیادتی ہوتی ہے۔ لوگ اس میں اس طرح سوار ہوتے ہیں جیسے ایک کیڑا لکڑی پر سوار ہوتا ہے۔ اگر لکڑی ذرا بھی پلٹ جائے تو کیڑا ڈوب جائے اور اگر سلامتی سے کنارے لگ جائے تو کیڑا حیران ہو کر رہ جائے۔
جب حضرت عمر نے یہ خط پڑھا تو انہوں نے معاویہ ابن ابی سفیان کو لکھا: ’اس ذات کی قسم! جس نے محمد ص کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، میں سمندر پر کسی مسلمان کو کبھی سوار نہیں کروں گا‘۔ 

تاریخ طبری (انگریزی)، ج 16 سن 28 کے حالات

تبصرہ:


1. سب سے پہلی بات نوٹ کریں کہ رسول اللہ (ص) کی وفات کو ایک طویل عرصہ گذر چکا ہے اور اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے متعلق سرے سے کوئی معلومات ہی نہیں۔ 

2. حضرت ابو بکر کا دور خلافت ڈھائی سال تک رہتا ہے اور اس پورے دور میں ہمیں اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے متعلق کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ بلکہ اس جنت کی بشارتی بحری جنگ کے متعلق ہمیں دور دور تک وہ جوش و جذبہ نظر نہیں آتا جو کہ حضرت ابو بکر نے جیش اسامہ کی روانگی کے وقت دکھایا تھا۔ 

3. پھر حضرت عمر کی خلافت کا طویل عرصہ شروع ہوتا ہے جو دس سال سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ اس دوران مسلمان فوجیں ایشیا و افریقہ میں ہر طرف روانہ کی جاتی ہیں اور مسلمان فارس ایران کو فتح کر لیتے ہیں اور دوسری طرف افریقہ میں مسلسل آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ چنانچہ ان دس سالوں میں ہر طرف فوج روانہ ہوتی ہے، اور نہیں ہوتی ہے تو ایک اس اہم ترین جنت کی بشارتی جنگ کے لیے روانہ نہیں ہوتی۔

4. پھر معاویہ ابن ابی سفیان گورنر مقرر ہوتا ہے اور وہ پہلا شخص ہے جو سمندر کے راستے بازنطینی ریاست پر حملہ آور ہونے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ 

مگر معاویہ ابن ابی سفیان خود ایسی کسی بھی جنت کی بشارتی جنگ سے ناواقف ہوتا ہے۔ چنانچہ معاویہ ابن ابی سفیان جب مرکز میں حضرت عمر کو جنگ کے لیے آمادہ کرنے کے لیے دلائل دینے کی کوشش کرتا ہےتو اس جنت کی مغفور و بخشے جانی والی بحری جنگ کا ذکر نہیں کرتا۔ بلکہ انتہائی مضحکہ خیز اکلوتی دلیل کے طور پربازنطینی سلطنت کے "کتوں کے بھونکنے" اور "مرغیوں کے کڑکڑانے" کا ذکر کرتا ہے۔

چنانچہ حضرت عمر یقینی طور پر ان کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے کڑکڑانے کی مضحکہ خیز دلیل پر کان نہیں دھرتے بلکہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ وہ ایک بھی مسلمان کو اس کے لیے سمندر کے حوالے نہیں کریں گے، دوسرے الفاظ میں ناصبیوں کی منطق کے مطابق حضرت عمر قسم کھاتے ہیں کسی مسلمان کو اس پہلی بشارتی بحری جنگ کے ذریعے جنت میں نہیں جانے دیں گے۔ معاذ اللہ۔

5. کیا یزید ِپلید کے حامی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عمر سمندر کا حال سن کر ڈر گئے تھے؟ یا پھر یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر کو رسول اللہ (ص) کی اس بشارت پر یقین نہ تھا کہ پہلی بحری جنگ میں شرکت کرنے پر جنت کی بشارت ہے؟

6. جیسا کہ ہم نے پہلے ہی واضح کیا کہ خود معاویہ کو ایسی کسی بشارت کا علم نہیں تھا لیکن پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاویہ کے علاوہ کوئی ایک بھی صحابی ایسا تھا جس نے اس پورے عرصے میں بحری جنگ کا ذکر کیا؟ خود سوچئیے کہ اگر واقعی پہلی بحری جنگ بیعت رضوان کی طرح اہم ہوتی تو ہزاروں لاکھوں صحابہ میں سے کوئی ایک تو اسکے لیے زبان کھولتا۔

تاریخ طبری سے دوسری روایت


جنادہ بن ابی امیہ ازدی سے روایت ہے:
معاویہ نے حضرت عمر کو خط لکھا اور انہیں بحری جنگ کے لیے یہ کہتے ہوئے اکسایا: ’یا امیر المومنین، شام کی ایک بستی کے لوگ بازنطینی ریاست کے کتوں کے بھونکنے اور انکی مرغیوں کے چلانے کی آوازیں سنتے ہیں کیونکہ یہ بازنطینی ریاست کے یہ لوگ حمص کے ساحل کے بالمقابل ہیں‘۔ اب حضرت عمر اس پر شک کا شکار ہو گئے کیونکہ یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھا جو اس بات کا مشورہ دے رہا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر نے عمرو بن العاص کو لکھا کہ وہ انہیں سمندر کے متعلق بیان کرے۔ عمرو بن العاص نے انہیں لکھا:’یا امیر المومنین، بہت لوگ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں۔ وہاں آسمان اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ لوگ وہاں اس طرح سوار ہوتے ہیں، جیسے لکڑی پر کیڑا سوار ہو۔ اگر الٹ پلٹ ہو گئی تو ڈوب جاتے ہیں اور بچ گئے تو صحیح سالم رہتے ہیں‘۔ 


یہ روایت بالکل پہلی والی روایت جیسی ہے۔ بہرحال اس میں واضح کیا گیا ہے کہ حضرت عمر اس بات پر شک کا شکار اس لیے ہوئے کہ یہ معاویہ ابن ابی سفیان تھا جو کہ اس جنگ کا مشورہ دے رہا تھا اور اسی لیے انہوں نے عمرو بن العاص کو خط لکھا۔

تاریخ طبری سے تیسری روایت


طبری جنادہ بن امیہ، ربی اور المجلد سے روایت کرتے ہیں:

عمر ابن خطاب نے معاویہ کو تحریر کیا: ’میں نے سنا ہے کہ بحر شام (بحیرہ روم) خشکی کے طویل ترین حصہ کے نزدیک ہے اور ہر روز و شب اللہ سے اجازت مانگتا ہے کہ وہ زمین میں سیلاب کی صورت میں آ کر اسے غرق کر دے۔ تو پھر میں اپنی فوجیں کیسے اس کافر چیز میں بھیج دوں؟ خدا کی قسم میرے لیے ایک مسلمان کی جان پوری رومی سلطنت سے زیادہ پیاری ہے۔ چنانچہ تم میری بات کی مخالفت کرنے سے باز آ جاؤ۔ میں تمہیں اس بات کا حکم (پہلے) ہی دے چکا ہوں اور تمہیں علم ہے کہ علاء ابن حضرمی کا میرے ہاتھوں (حکم عدولی) پر کیا حشر ہوا تھا جبکہ میں نے تو اسے ایسے کھلے اور صاف احکامات بھی نہیں دیے تھے‘۔

تبصرہ:
1. پہلی بحری جنگ پر جنت کی بشارت تو رہی ایک طرف، حضرت عمر ابن الخطاب تو معاویہ کو زبردست طریقے سے دھمکیاں دے رہے ہیں۔

2. اگر واقعی ایسی کوئی جنت کی بشارت ہوتی تو پھر کیا لوگ یہ خیال کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر یوں غصہ ہو کر اتنی خطرناک دھمکی خیز الفاظ استعمال کرتے؟

تاریخ طبری سے چوتھی روایت:جبری فوجی بھرتی پر پابندی


امام طبری خالد بن معدان سے روایت کرتے ہیں:

پہلا شخص جس نے بحری جنگ کی، وہ معاویہ ابن ابی سفیان تھے اور یہ حضرت عثمان ابن عفان کا دور تھا۔(اس سے قبل) معاویہ حضرت عمر سے اس کی اجازت مانگتے رہے لیکن انہیں یہ اجازت نہیں مل سکی۔ اور جب عثمان ابن عفان خلیفہ بنے تو معاویہ ان پر بھی اس کے لیے دباؤ ڈالتے رہے حتی کہ (4 سال) بعد حضرت عثمان ابن عفان نے اسے اس کی اجازت دے دی، لیکن ساتھ میں یہ حکم دیا: ’کسی کو زبردستی فوج میں بھرتی ہونے پر زور نہ دینا اور نہ ہی قرعہ اندازی کروا کر اس میں نکلنے والے ناموں پر جنگ میں شامل ہونے کے لیے زبردستی کرنا بلکہ انہیں خود اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے دینا۔ اور جو اس مہم میں جانے کے لیے تمہاری اطاعت اختیار کریں، انکی مدد کرنا‘۔

تبصرہ:


1. حضرت عمر کی پوری دس سالہ خلافت میں معاویہ کو کوئی کامیابی نہیں ملتی کہ وہ انہیں اس پہلی جنت کی بشارتی جنگ کے لیے آمادہ کر سکے۔ 

2. لیکن حضرت عمر کے بعد اب حضرت عثمان ابن عفان بھی اس جنت کی بشارتی جنگ کے لیے تیار نہیں۔ حتی کہ انکی خلافت شروع ہوئے 4 سال کا عرصہ گذر جاتا ہے۔ یعنی حضرت عثمان سن 24 ہجری میں خلیفہ بنے اور یہ پہلی بحری جنگ سن 28 ہجری میں لڑی گئی۔

جن لوگوں نےاسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے ان سے ڈھکا چھپا نہیں کہ حضرت عثمان، معاویہ ابن ابی سفیان کے کتنے زیرِاثر تھے کیونکہ انکے مابین قرابت داری تھی۔ لیکن اس پہلی بحری جنگ کے مسئلے پر پھر بھی معاویہ کو حضرت عثمان کو آمادہ کرتے کرتے 4 سال کا عرصہ لگ گیا۔ 

چنانچہ حضرت عثمان ابن عفان نے آخر کار اجازت دے دی، لیکن اب دیکھئے ان شرائط کو جو تعجب خیز ہیں:
  • حضرت عثمان شرط عائد کر رہے ہیں کہ معاویہ اس جنگ کے لیے جبری بھرتیاں نہیں کرے گا۔
  • اب ذرا تصور کیجئے بیعت رضوان کا اور پھر سوچیئے کہ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ جنت کی بشارت کا سن کر لوگ جوق در جوق اسلامی ریاست کے ہر کونے سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اس بشارتی جنگ میں شمولیت کے لیےخود بخود روانہ ہوتے؟

لیکن نہیں، حضرت عثمان پھر بھی ڈر ہے اور وہ اس لیے پابندی عائد کر رہے ہیں کہ جبری فوجی بھرتیاں نہیں کی جائیں۔

اور مرکز سے اس جنت کی بشارتی بحری جنگ میں کتنے ہزاروں صحابہ کی فوج روانہ ہوئی؟ مرکز سے ہزاروں صحابہ کی فوج آمد تو چھوڑئیے، شاید ہی کوئی ایک صحابی مرکز سے اس جنت کے حصول کے لیے آیا ہو۔ اور اس جنگ میں معاویہ کے ساتھ صرف تین چار صحابہ کا نام ملتا ہے۔ ایک عبادہ بن الصامت، ان کی زوجہ ام حرام، اور ابو درداء۔ 

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صحابیہ ام حرام (جن سے یہ شام کے منافق راوی نے یہ جھوٹی روایت انکے مرنے کے بعد منسوب کر دی)، ان کے شوہر عبادہ بن الصامت اس جنگ کے بعد زندہ رہے اور انہیں پوری زندگی ایسی کسی جنت کی بشارت کا علم نہ تھا، بلکہ وہ معاویہ پر اُس کے غلط کاموں کی وجہ سے انتہائی تنقید کرتے تھے، اس متعلق آگے آپ روایات ملاحظہ فرمائیں گے۔


حصہ دوم: کیا کوئی ایسی جنت کی بشارت قیصر کے شہر پر حملے کے متعلق موجود ہے؟




جواب ہے: نہیں۔
  • کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود نہیں جو دور دور تک یہ بتلاتی ہو کہ جن لوگوں نے اس جنگ میں حصہ لیا انہیں ایسی کسی جنت کی بشارت اور مغفور و بخشے جانے کی بشارت کا علم ہو۔
  • چنانچہ ان ہزاروں روایات میں، جو کہ سینکڑوں کتب میں بکھری ہوئی ہیں، کوئی ایک بھی ایسی روایت موجود نہیں جو اس جنت کی بشارت کا اس پورے عرصے میں ذکر کرتی ہو۔
  • لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

قیصر کے شہر پر پہلے حملے کی تو وہی اہمیت ہے جو کہ بیعت رضوان کی ہے لیکن پھر بھی کسی کو اس بشارت کا علم نہیں۔ حتی کہ وہ فوج جو اس میں حصہ لیتی ہے، اسے بھی دور دور تک اسکا کوئی علم نہیں۔ 


امام طبری نے اس اہم ترین بشارتی جنگ کا بیان کرنے کے لیے صرف ایک سطر کی جگہ دی



اس جنت کی بشارتی جنگ کا کیا ذکر کرنا، کہ امام طبری کہ جنہوں نے اسلامی تاریخ پر سب سے جامع اور طویل کتاب لکھی، انہوں نے اہم ترین بشارتی جنگ کے بیان کو صرف ایک سطر سے زیادہ جگہ نہ دی۔ امام طبری سن 49 ہجری کے حالات میں لکھتے ہیں:

اور یزید بن معاویہ نے روم میں جنگ کی یہاں تک کہ قسطنطنیہ تک پہنچ گیا۔ ابن عباس و ابن عمر و ابن زبیر و ابو ایوب انصاری اس کے ساتھ تھے۔
 تاریخ طبری، ج 5 ص 222

امام ابن اثیر پنی تاریخ کی مشہور کتاب ’تاریخ کامل‘ میں اس واقعے کی مزید تفصیلات بیان کر رہے ہیں جو تاریخ طبری میں موجود نہیں، لیکن وہ یزید ابن معاویہ کا اصل چہرہ روشنی میں لا رہی ہیں:

في هذه السنة وقيل‏:سنة خمسين سير معاوية جيشًا كثيفًا إلى بلاد الروم للغزاة وجعل عليهم سفيان بن عوف وأمر ابنه يزيد بالغزاة معهم فتثاقل واعتل فأمسك عنه أبوه فأصاب الناس في غزاتهم جوعٌ ومرض شديد فأنشأ يزيد يقول‏:ما إن أبالي بما لاقت جموعهم بالفرقدونة من حمى ومن موم إذا اتكأت على الأنماط مرتفقًا بدير مروان عندي أم كلثوم وأم كلثوم امرأته وهي ابنة عبد الله بن عامر‏.فبلغ معاوية شعره فأقسم عليه ليلحقن بسفيان في أرض الروم ليصيبه

اس سال (سن 49 ہجری) اور کچھ کہتے ہیں کہ سن 50 ہجری میں معاویہ ابن ابی سفیان نے تیاریاں کیں کہ روم کے شہروں اور قصبوں پر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں حملے کیے جائیں۔ چنانچہ معاویہ ابن ابی سفیان نے فوجیں روانہ کیں اور اپنے بیٹے یزید کو بھی حکم دیا کہ وہ اس فوج میں شامل ہو جائے لیکن یزید اس معاملے میں سستی دکھاتا رہا حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان اس معاملے میں خاموش ہو گئے۔ یہ فوج جنگ کے دوران بیماری اور بھوک کا شکار ہو گئی اور جب یزید کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشعار پڑھے: ’مجھے اسکی کیا پرواہ کہ فوج فرقدونہ کے مقام پر بخار اور دیگر مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ میں تو آرام و سکون کے ساتھ اعلی پوشاک میں مروان کے گھر میں ام کلثوم کے ساتھ رہ رہا ہوں‘۔ ام کلثوم بنت عبداللہ ابن عامر، یزید کی بیوی تھی۔ جب معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید کے یہ اشعار سنے تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ یزید کو روم میں سفیان ابن عوف کے پاس ضرور بھیجیں گے تاکہ یزید کو مشکلات کا سامنا کر کے انہیں جھیلنا پڑے۔

 الکامل فی تاریخ ، ج 2 

یزید کے حامیوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کہ کبار صحابہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ایوب انصاری نے اس جنگ میں اس جنت کی بشارت کی وجہ سے شرکت کی



یہ یزید کے حامیوں کا سراسر جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ ایسی کوئی ایک بھی روایت موجود نہیں ہے جو اس جھوٹ کا ذکر کرتی ہو بلکہ اس جھوٹے پروپیگنڈہ کے بالکل برعکس، اوپر ہم نے امام ابن اثیر کی روایت نقل کی ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان نے بطور سزا یزید کو روم فوج کے پاس بھیجا تھا۔ یہی روایت آگے بیان کرتی ہے کہ یہ کبار صحابہ (ابن عباس، ابو ایوب انصاری، ابن عمر، ابن زبیر) خود اپنی طرف سے اس جنگ میں نہیں گئے تھے بلکہ معاویہ ابن ابی سفیان نے انہیں یزید کے ہمراہ بھیجا تھا۔

 فبلغ معاوية شعره فأقسم عليه ليلحقن بسفيان في أرض الروم ليصيبه ما أصاب الناس فسار ومعه جمع كثير أضافهم إليه أبوه وكان في الجيش ابن عباس وابن عمر وابن الزبير وأبو أيوب الأنصاري وغيرهم

معاویہ ابن ابی سفیان نے یزید کے یہ اشعار سنے تو انہوں نے قسم کھائی کہ وہ یزید کو روم میں سفیان ابن عوف کے پاس ضرور بھیجیں گے تاکہ یزید کو مشکلات کا سامنا کر کے انہیں جھیلنا پڑے۔ اور معاویہ نے اسکے ساتھ مزید فوج بھی روانہ کی جس میں ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر اور ابو ایوب انصاری وغیرہ شامل تھے۔


چنانچہ یزید کے حامیوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس، پورے ذخیرہ ِ روایات میں ایک بھی روایت ایسی موجود نہیں ہے جو بتلاتی ہو کہ ان کبار صحابہ نے اس جنگ میں کسی جنت کی بشارتی حدیث کی وجہ سے شرکت کی ہو۔ بلکہ انہیں معاویہ ابن ابی سفیان نے روانہ کیا تھا کیونکہ یہ اُس وقت کا بہت ہی اہم محاذ تھا جیسا کہ مسلم افواج پہلے ہی ایران اور دیگر اہم ممالک کو فتح کر چکی تھیں۔ اور صحابہ کا یہ بذات خود طریقہ تھا کہ وہ ہر ہر اہم محاذ پر خود سےجہاد کے لیے روانہ ہوتے تھے اور اسکا کسی بشارت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر جب مدینہ شہر میں حضرت عثمان کے خلاف بغاوت اٹھ رہی تھی تو بہت سے صحابہ سرحدوں پر جہاد میں مصروف تھے اور مدینہ کے صحابہ نے انہیں خط لکھا کہ اصل جہاد تو یہاں مدینہ میں ہے، چنانچہ وہ لوگ واپس مدینہ آ جائیں۔

واقدی نے محمد بن عبداللہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے:
سن ۳۴ ہجری میں رسول ص کے چند صحابہ نے دیگر اصحابِ رسول (ص) کو خطوط لکھے (جو کہ جہاد کی غرض سے دور دراز علاقوں میں گئے ہوئے تھے) کہ:
’تم لوگ واپس مدینہ چلے آؤ چونکہ اگر تمہیں جہاد ہی کرنا ہے تو جہاد یہاں ہمارےپاس مدینے میں ہی ہے‘۔

تاریخ طبری (انگلش ایڈیشن)، جلد 15، صفحہ 140، سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک پریس۔

ایسے ہی ایک اور خط کے متعلق مزید ایک اور روایت امام طبری نے عبدالرحمن بن یسار سے بیان کی ہے اور وہ اسی جلد کے صفحہ 183 پر موجود ہے۔ 

چنانچہ یہ صحابہ کا عام طریقہ کار تھا کہ وہ سرحدی علاقوں میں جہاد کے لیے جاتے تھے اور اسکا کسی بشارت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ یہ یزید کے حامیوں کا بہت بڑا جھوٹ ہے کہ یہ کبار صحابہ کسی جنت کی بشارت کی وجہ سے اس جنگ میں شریک ہوئے۔ 


ایک اور بہانہ:حضرت ابو ایوب انصاری بڑھاپے میں جنگ میں شامل ہوئے جس سے ثابت ہوا انہیں جنت کی بشارت کا علم تھا


یہ ایک اور لنگڑا اور جھوٹا بہانہ۔ بجائے اسکے کہ وہ کوئی ایک روایت اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے، یہ لوگ اپنے قیاسات کو اپنا بہانہ بناتے ہوئے پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ 

عمار یاسر صحابی نے بھی علی ابن ابی طالب کی طرف سے انتہائی بڑھاپے (90 برس کی عمر میں) جنگ صفین میں معاویہ ابن ابی سفیان کے خلاف جنگ کی تھی اور شہادت پائی تھی۔ 

چنانچہ اب یزید کے حامیوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے کہ وہ فرار ہو سکیں۔ شکر الحمدللہ۔

تاریخ: یزید وہ پہلا شخص نہیں جس نے قیصر کے شہر پر حملہ کیااور نہ ہی یزید نے اسے فتح کیا



آپ نے سنا ہو گا کہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔ ایک جھوٹ سے کئی تضادات پیدا ہوتے ہیں اور تضادات کی وجہ سے یہ جھوٹ پکڑا جاتا ہے۔ ایک بہت ہی اہم حقیقت جو یزید کے حامیوں کے اس جھوٹے پروپیگنڈے میں دب کر رہ جاتی ہے وہ یہ ہے کہ:

1. نہ تو یزید وہ پہلا شخص تھا جس نے قیصر کے شہر پر حملہ کیا۔

2. اور نہ ہی ہی یزید نے قیصر کے اس شہر قسطنطنیہ کو فتح کیا۔

بلکہ یزید صرف قسطنطنیہ کی دیوار تک پہنچ پایا تھا۔ 

پہلی حقیقت: یزید نے قسطنطنہ کو کبھی فتح نہیں کیا



امام طبری لکھتے ہیں:

سن 49 ہجری کے واقعات:
اور یزید ابن معاویہ نے روم میں جنگ کی حتی کہ وہ قسطنطنہ تک پہنچ گیا۔

 تاریخ طبری، ج 5 ص 222

اور وکیپیڈیا میں "قسطنطنیہ کی تاریخ" کے ذیل میں لکھا ہے:

In 674 the Umayyad Caliph Muawiyah I besieged Constantinople under Constantine IV. In this battle,the Umayyads were unable to breach the Theodosian Walls and blockaded the city along the River Bosporus. The approach of winter however forced the besiegers to withdraw to an island 80 miles(130 km) away.

 وکیپیڈیا

اور یہی تاریخ آپ کو ویب سائیٹ roman-empire.net پر ملے گی:

True History tells Arabs never conquered Constantinople, but it were Muslim Turks who conquered it.

 roman-empire.net 

یعنی تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ یہ عرب مسلم نہیں تھے جنہوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا بلکہ یہ مسلم ترک تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ قسطنطنیہ کو فتح کیا۔

دوسری حقیقت: قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ نہیں ہے


بخاری کی اس روایت میں لفظ "قسطنطنیہ" استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ "قیصرکا شہر" کےالفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یزید کے حامی دعوٰی کرتے ہیں کہ قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ قیصر کی حکومت کئی اہم شہروں پر مشتمل تھی اور مسلمان تو یزید کی پیدائش کے قبل سے ہی ان قیصر کے شہروں پر حملے کر رہے تھے۔

تیسری حقیقت: قیصر کے شہروں پر مسلمانوں کے اُن حملوں کی تاریخ جو یزید سے پہلے کیے گئے


پہلی مسلم فوج جس نے قیصر کے شہر [روم] پر حملہ کیا وہ بذات خود رسول اللہ (ص) نے روانہ کی تھی۔ اسکے کمانڈر صحابی زید بن حارث تھے اور رسول اللہ (ص) نے اس جنگ میں حضرت جعفر طیار، زید بن حارث اور حضرت عبداللہ کی شہادت کی خبر دے دی تھی [قبل اسکے کہ یہ خبر مدینہ پہنچتی]۔ دیکھئیے وکیپیڈیا پر جنگ موتہ پر مضمون:

 وکیپیڈیا، آن لائن لنک

اگر ہم "شہرِ قیصر" سے مراد اسکا دارلخلافہ بھی لیں یعنی شہر حمص تو یہ شہر حمص بھی حضرت عمر ابن الخطاب کے زمانے میں سن 16 ہجری میں فتح ہو گیا تھا۔ اسکے کمانڈر جناب ابو عبیدہ تھے اور صحابی یزید بن ابو سفیان اس فوج میں شامل تھے جبکہ یزید بن معاویہ اس وقت تک پیدا تک نہیں ہوا تھا۔ 

اور اگر ہم بہت زیادہ تخیل سے کام لیتے ہوئے "شہرِ قیصر" سے مراد صرف اور صرف "قسطنطنیہ" بھی لے لیں تب بھی یزید ابن معاویہ سے قبل مسلم فوجیں قسطنطنیہ پر کئی حملے کر چکی تھیں۔ابن کثیر الدمشقی اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں سن 32 ہجری کے واقعات میں لکھتے ہیں: 

اس سال حضرت معاویہ نے بلاد روم سے جنگ کی حتی کہ آپ قسطنطنیہ کے درے تک پہنچ گئے اور آپکی بیوی عاتکہ بھی آپ کے ساتھ تھی۔۔۔۔
البدایہ و النہایہ، جلد ہفتم، سن 32 ہجری کے حالات، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، صفحہ 212 

پھر قسطنطنیہ پر اگلا حملہ عبداللہ ابن ابی ارطاۃ کی سرکردگی میں سن 42 ہجری میں ہوا اور مؤرخین نے اس کو نقل کیا ہے۔

اگلہ حملہ سن 43 ہجری میں بسر بن ارطاۃ کی قیادت میں ہوا۔ ابن کثیر الدمشقی سن 43 ہجری کے حالات میں لکھتے ہیں:

اس سال میں بسر بن ارطاۃ نے بلاد روم سے جنگ کی حتی کہ قسطنطنیہ کے شہر تک پہنچ گیا اور واقدی کے خیال کے مطابق موسم سرما انکے ملک میں گذارا۔۔۔۔
 البدایہ و النہایہ، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، جلد ہشتم، صفحہ 38

اگلا حملہ سن 44 ہجری میں ہوا اور اسکی سرکردگی عبدالرحمن بن خالد بن ولید کر رہے تھے۔ ابن کثیر الدمشقی سن 44 ہجری کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس سال میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید نے بلاد روم کے ساتھ جنگ کی اور مسلمان بھی آپ کے ساتھ تھے اور انہوں نے موسم سرما وہیں گذارا اور اسی میں بسر بن ابی ارطاۃ نے سمندر میں جنگ کی۔ 
 البدایہ و النہایہ، جلد ہشتم، اردو ترجمہ نفیس اکیڈمی، صفحہ 42 

اس سے اگلا حملہ سن 46 ہجری میں پھر عبدالرحمن بن خالف بن ولید کی سرکردگی میں ہوا اور انہوں نے موسم سرما بلاد روم میں گذارا ۔بعض کا قول ہے کہ اس میں فوج کا امیر کوئی اور تھا۔ حوالہ: البدایہ و النہایہ، سن 46 ہجری کے حالات، جلد ہشتم، صفحہ 73۔ 
پھر سن 47 ہجری میں مالک بن ہبیرہ کی سرکردگی میں حملہ ہوا ۔ سنن ابو داؤد کے مطابق اسی سن 47 میں عبدالرحمن بن خالد بن ولید کا انتقال ہو گیا تھا۔
پھر سن 49 میں روم پر سفیان بن عوف کی سرکردگی میں تین حملے ہو چکے تھے۔ اور ان تین حملوں کے بعد معاویہ ابن ابی سفیان کے حکم پر زبردستی یزید محاذ تک پہنچتا۔ (دیکھئیے علامہ ابن اثیر کی روایت جو اوپر نقل کی جا چکی ہے)۔

چنانچہ یہ یزید سے قبل قسطنطنیہ پر کیے جانے والے حملوں کی مختصر تاریخ ہے۔ چنانچہ شام کا ناصبی منافق راوی جس نے یہ جھوٹی روایت گھڑی، وہ مسلمانوں کی اس تاریخ سے بے خبر تھا کہ یزید سے قبل مسلمان قسطنطنیہ پر 7 حملے کر چکے تھے۔ 

اس لیے کہا جاتا ہے کہ جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس جھوٹے شامی راویوں کے پاس نہ عقل تھی اور نہ علم۔ 

یزید کے حامیوں کا انس ابن مالک کی روایت کو بطور ثبوت پیش کرنا



یزید کے حامی الفاظ اور مطالب کو گھما پھرا کر انس ابن مالک کی ذیل کی روایت سے پھر یزید کو جنتی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.صحیح بخاری، جلد 4، کتاب 52، روایت 56(انگلش ورژن)۔:

انس روایت کرتے ہیں: (صحابیہ) ام حرام کہتی ہیں کہ ایک دن رسول (ص) میرے گھر میں میرے قریب میں سو ئے اور پھر مسکراتے ہوئے اٹھے۔میں نے پوچھا:یا رسول اللہ (ص) آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ (خواب میں) میرے سامنے پیش کیے گئے جو کہ سمندر پر ایسے سفر کر رہے تھے جیسے بادشاہ اپنے تخت پر۔ اس پر ام حرام نے پوچھا: اے اللہ کے رسول (ص) آپ دعا فرمائیے کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) نے انکے لیے دعا کی اور دوبارہ سو گئے۔ اور کچھ دیر بعد پھر مسکراتے ہوئے اٹھے۔ اور پھر مسکرانے کی وہی وجہ فرمائی ۔ اور پھر فرمایا کہ تم بھی پہلے بحری بیڑے میں شامل ہو۔ بعد میں ام حرام اپنے شوہر عبادہ بن الصامت کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوئیں اور یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مسلمانوں نے بحری جنگ میں حصہ لیا جو کہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں روانہ ہوا۔ جب وہ اس سے فارغ ہو کر شام واپس جا رہے تھے، تو راستے میں وہ اپنی سواری کے جانور سے گر کر زخمی ہو گئیں اور یوں آپ کا انتقال ہوا۔ 

چنانچہ یزید کے حامی حضرات کے دعوے کے برعکس اس روایت میں یزید کے لیے یا پہلی بحری جنگ والوں کے لیے کوئی جنت نہیں ہے اور نہ ان کے تمام گناہوں کا بخشے جانا ہے بلکہ یہ روایت تو شامی راویوں کی روایت کی تکذیب کر رہی ہے کیونکہ:

  • اس روایت میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے کہ اس پہلی بحری جنگ میں جانے والوں کے لیے جنت کا وعدہ ہے، جیسا شامی راویوں نے بیان کیا تھا۔
  • اور اس میں یزید کے لیے کوئی ذکر نہیں کہ قیصر کے شہر پر پہلا حملہ کرنے والوں کے تمام گناہ بخشے جائیں گے، جیسا کہ شامی راویوں نے بیان کیا تھا۔

چنانچہ یہ روایت تو بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ شامی راویوں نے اس روایت میں جھوٹ کی ملاوٹ کر کے بنی امیہ کے حرام کا حق ادا کیا۔ نوٹ کریں:
  • شامی راویوں کی روایت کا سب سے اہم حصہ تھا "جنت کی بشارت اور مغفور اور بخشے جانا"۔ مگر انس کی اس روایت میں یہ سب سے اہم حصہ ہی نہیں ملتا۔
  • انس بھانجے تھے ام حرام کے اور اس لیے یہ واقعہ مکمل تفصیل سے بیان کر رہے ہیں لیکن پھر کیسے یہ ممکن ہوا کہ ام حرام اپنے بھانجے کو تو یہ سب سے اہم ترین حصہ بیان نہ کریں لیکن صرف اور صرف ایک نامحرم شامی کو یہ روایت بیان کریں؟
  • چنانچہ انس کو سرے سے ہی اس جنت کی بشارت کا علم نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ جنت حاصل کرنے کے لیے اس جنگ کے لیے روانہ ہوتے ہیں؟ ہے نا حیرت کی بات؟
  • اور انس کسی اور ایک بھی صحابی کو بھی جنت کی اس بشارت کا نہیں بتلاتے ہیں اور یوں مرکز سے ایک بھی صحابی جنت کو حاصل کرنے کے لیے روانہ نہیں ہوتا ہے۔


ام حرام کے شوہر عبادہ بن الصامت کی معاویہ ابن ابی سفیان کے غلط کاموں پر سخت تنقید


صحابی عبادہ بن الصامت جو کہ صحابیہ ام حرام کے شوہر ہیں، نے بذات خود اس پہلی بحری جنگ میں شرکت کی۔ صحابیہ ام حرام کا تو شام واپسی پر سواری کے جانور سے گر کر انتقال ہو گیا، لیکن انکے شوہر عبادہ اسکے بعد بہت عرصے تک زندہ رہے اور انہیں بھی دور دور تک کسی جنت کی بشارت وغیرہ کا علم نہ تھا۔ جنت کی بشارت ایک طرف رہی، یہ صحابی تو معاویہ ابن ابی سفیان کے غلط کاموں کی وجہ سے اُس پر شدید تنقید کرتے رہے۔ 

آئیے صحابی عبادہ بن الصامت کی رائے دیکھتے ہیں معاویہ ابن ابی سفیان کے متعلق:

 لما قَدِم عمرو بن العاص على معاوية وقام معه في شأن عليّ بعد أن جعل له مصر طُعمة قال له‏:‏ إن بأرضك رجلاً له شرَف واسم واللّه إنْ قام معك استهويتَ به قلوبَ الرجال وهو عُبادة بن الصامت‏.‏ فأرسل إليه معاوية‏.‏ فلما أتاه وَسّع له بينه وبين عمرو بن العاص فَجَلس بينهما‏.‏فحَمد اللّهَ معاوية وأثَنى عليه وذكر فضلَ عُبادة وسابقَته وذكر فضلَ عُثمان وما ناله وحضّه على القيام معه‏.‏ فقال عُبادة‏:‏ قد سمعتُ ماِ قلتَ أتدريانِ لمَ جلستُ بينكما في مكانكما قالا‏:‏ نعم لفضلك وسابقتك وشرفك‏.‏ قال‏:‏ لا واللّه ما جلستُ بينكما لذلك وما كنتُ لأجلس بينكما في مكانكما ولكن بينما نحن نسير مع رسول اللّه صلى الله عليه وسلم في غَزاة تَبوك إذ نظر إليكما تسيران وأنتما تتحدثان فالتفت إلينا فقال‏:‏ إذا رأيتموهما اجتمعا ففرقوا بينهما فإنهما لا يجتمعان على خير أبداً‏.‏

جب عمرو بن العاص معاویہ کے پاس گیا اور علی ابن ابی طالب کے مقابلے میں معاویہ کے ساتھ کھڑا ہو گیا کیونکہ معاویہ ابن ابی سفیان نے مصر اس کے حوالے کر دیا تھا۔ عمرو نے معاویہ سے کہا: یہاں ایک شرف و عزت رکھنے والا شخص ہے کہ جو کہ اگر تمہارے ساتھ ہو جائے تو تم لوگوں کے دلوں کو جیت لو گے۔ اور یہ شخص عبادہ بن الصامت ہے۔ چنانچہ معاویہ نے عبادہ بن الصامت کو بلا بھیجا اور انہیں اپنے اور عمرو بن العاص کے درمیان میں بیٹھنے کی جگہ دی۔ پھر معاویہ نے اللہ کی حمد پڑھی اور عبادہ کی تعریف کی اور انکی اسلام کی خدمات کا ذکر کیا، اور پھر حضرت عثمان ابن عفان کی فضیلت بیان کی اور جو کچھ انکے ساتھ ہوا اُس کا ذکر کیا اور چاہا کہ عبادہ اسکے ساتھ قیام پر تیار ہو جائیں۔ عبادہ نے فرمایا: ’جو کچھ تم نے کہا وہ میں نے سنا۔ تمہیں پتا ہے کہ میں کیوں تمہارے اور عمرو بن العاص کے درمیان بیٹھا ہوں؟‘۔ انہوں نے کہا کہ ہاں تمہارے فضل اور سبقت کی وجہ سے۔ اس پر عبادہ نے جواب دیا: ’اللہ کی قسم، میں اس وجہ سے تم دونوں کے درمیان آ کر نہیں بیٹھا ہوں، بلکہ جب ہم جنگ تبوک میں رسول اللہ ص کے ساتھ سفر کر رہے تھے تو رسول اللہ (ص) نے تم دونوں کی طرف دیکھا تھا جب تم باتیں کرتے ہوئے جا رہے تھے۔ پھر رسول اللہ(ص) نے ہماری طرف دیکھا اور ہم سے فرمایا تھاکہ اگر تم ان دونوں کو کبھی اکھٹا دیکھو تو انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دو کیونکہ یہ دونوں کبھی خیر پر اکھٹے نہیں ہو سکتے‘۔ 

 العقد الفرید، جلد ا 

اور امام ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے:

 حدثنا أبو بكر قال حدثنا عبد الوهاب الثقفي عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الاشعث قال : كنا في غزاة وعلينا معاوية ، فأصبنا فضة وذهبا ، فأمر معاوية رجلا أن يبيعها الناس في أعطياتهم ، فتسارع الناس فيها ، فقام عبادة فنهاهم ، فردوها ، فأتى الرجل معاوية فشكا إليه ، فقال معاوية خطيبا فقال : ما بال رجلا يحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث يكذبون فيها عليه ، لم نسمعها ؟ فقام عبادة فقال : والله لنحدثن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية

ابی الاشعث کہتے ہیں: ہم ایک دفعہ معاویہ ابن ابی سفیان کی سرکردگی میں جنگ پر تھے۔ پس جنگ کے بعد سونا اور چاندی ہمارے ہاتھ آئی۔ پھر معاویہ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اسے لوگوں کے ہاتھ بیچ دے، چنانچہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔ پھر صحابی عبادہ بن الصامت نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ اس پر اُس شخص نے معاویہ سے شکایت کر دی اور معاویہ نے کہا: ’کیوں یہ شخص (صحابی عبادہ بن الصامت) رسول (ص) پر جھوٹ باندھ رہا ہے؟‘ اس پر عبادہ نے جواب دیا: ’اللہ کی قسم ہم رسول اللہ( ص)کی حدیث بیان کرتے رہیں گے چاہے یہ معاویہ کو بُرا ہی کیوں نہ لگتا رہے‘۔ 

 مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 5، صفحہ 297، روایت 363 (2)۔

اور محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب "تحفہ اثناء عشریہ" میں لکھتے ہیں:

عبادہ بن الصامت شام میں تھے جب انہوں نے دیکھا کہ معاویہ کا ایک کاروان جس میں اونٹ ہی اونٹ تھے، وہ اپنی پشتوں پر شراب کو لیےجا رہے تھے۔ عبادہ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: یہ شراب ہے جو معاویہ نے بیچنے کے مقصد سے بھیجی ہے۔ اس پر عبادہ چاقو لے کر آئے اور اونٹوں پر بندھی رسیوں کو کاٹ دیا حتی کہ تمام شراب بہہ نہ گئی۔ 
تحفہ اثناء عشریہ (فارسی) صفحہ 638

یہی شراب والی روایت تاریخ ابن عساکر (جلد 26، صفحہ 197)اور امام الذہبی کی سیر اعلام النبلاء (جلد 2، صفحہ 10) پر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر لگتا ہے کہ ان کتب کے جدید ایڈیشنز میں معاویہ کا نام نکال کر "فلاں۔ فلاں" لکھ دیا گیا ہے۔ بہرحال، یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کیونکہ ان کتابوں میں یہ تو موجود ہے کہ عبادہ بن الصامت نے وہ شراب بہائی تھی جو کہ شام کے حاکم کی ملکیت تھی، اور یہ چیز کافی ہے کیونکہ شام کا حاکم معاویہ ابن ابی سفیان تھا۔ اور شیخ الارنوط نے سیر اعلام النبلاء کے حاشیے میں لکھا ہے کہ یہ روایت "حسن" ہے۔ 

اور علامہ متقی الہندی نے اسی سے ملتی جلتی روایت نقل کی ہے:

عن محمد بن كعب القرظي قال‏:‏ غزا عبد الرحمن بن سهل الأنصاري في زمن عثمان، ومعاوية أمير على الشام، فمرت به روايا خمر تحمل، فقام إليها عبد الرحمن برمحه، فبقر كل رواية منها فناوشه ‏(‏فناوشه‏:‏ ناشه ينوشه نوشا، إذا تناوله وأخذه‏.‏انتهى‏.‏النهاية ‏(‏5/128‏)‏ ب‏)‏ غلمانه حتى بلغ شأنه معاوية، فقال‏:‏ دعوه فإنه شيخ قد ذهب عقله فقال‏:‏ كذب والله ما ذهب عقلي ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا أن ندخله بطوننا واسقيتنا، وأحلف بالله لئن أنا بقيت حتى أرى في معاوية ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبقرن ‏(‏لأبقرن‏:‏ البقر‏:‏ الشق والتوسعة‏.‏ النهاية ‏(‏3/144‏)‏ ب‏)‏ بطنه أو لأموتن دونه‏.‏

محمد بن کعب القرظی کہتے ہیں: عبدالرحمن بن سہل انصاری نے حضرت عثمان کے دور میں ایک جنگ میں شرکت کی اور اُس وقت معاویہ ابن ابی سفیان شام کا حاکم تھا۔ پھر وہاں سےان کے سامنے سے شراب کے بھرے ہوئے کنستر گذرے۔ اس پر وہ اپنا نیزہ پکڑ کر آگے آئے اور ہر شراب کے کنستر میں انہوں نے نیزہ گھونپ دیا۔ اس پر غلاموں نے مدافعت کی، حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان کو اسکی خبر ہوئی۔ معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ اسے چھوڑ دو کہ یہ بڈھا شخص اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے۔ اس پر عبدالرحمان نے کہا:اللہ کی قسم، یہ (معاویہ) جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے ہرگز اپنے ہوش و حواس نہیں کھوئے ہیں، مگر اللہ کے رسول ص نے ہمیں شراب پینے سے منع کیا تھا۔ اللہ کی قسم اگر میں زندہ رہوں اور مجھے معاویہ وہ کرتے ہوئے نظر آ جائے جس سے رسول ص نے منع کیا تھا، تو پھر یا تو میں معاویہ کی انتڑیوں کو کھول دوں گا یا پھر خود مارا جاؤں گا۔ 

 کنز الاعمال، جلد 5، صفحہ 713، حدیث 13716

یہی روایت ذیل کی اہلسنت کتب میں بھی موجود ہے:
فیض القدیر، جلد 5، صفحہ 462، روایت 7969
تاریخ دمشق، جلد 34، صفحہ 420
اسد الغابہ، جلد 1، صفحہ 699، بہ عنوان عبدالرحمان بن سہل بن زید
الاصابہ، جلد 4، صفحہ 313، روایت 5140

علما ء اہل ِسنت کی گواہی کی بخاری کی روایت یزید کو فائدہ فراہم نہیں کرتی



وقال المهلب في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر انتهى قلت أي منقبة كانت ليزيد وحاله مشهور فإن قلت قال في حق هذا الجيش مغفور لهم قلت لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة

مھلب کا کہنا ہے کہ اس روایت میں معاویہ کے لئے مناقب موجود ہے کیونکہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بحری فتح حاصل کی اور یزید کے لئے بھی کیونکہ اس نے قیصر کے شہر کو فتح کیا۔ میں کہتا ہوں کہ یزید جیسے شخص کے کیا مناقب ہوسکتے ہیں جس کا حال مشہور ہے! اگر تم کہتے ہو کہ رسول اللہ (ص) نے یہ کہا کہ اس لشکر کے لوگوں کے گناہوں کی بخشش ہوگئی تو میں کہونگا کہ یہ ضروری نہیں کہ بغیر کسی استثنا کے ہر ایک فرد اس میں شامل ہو کیونکہ اہل ِعلم (علماء) میں اختلاف نہیں کہ مغفرت مشروط ہے یعنی صرف انہی کے لئے ہے جو اس کے اہل ہوں کیونکہ اگر فتح کے بعد اس لشکر میں سے کوئی شخص بعد میں مرتد ہوگیا ہوتا تو ظاہر ہے وہ ان میں شامل نہ ہوتا جن کی مغفرت ہوچکی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ (اس روایت میں) مغفرت مشروط ہے۔


اسی طرح امام عبدالروف المناوی لکھتے ہیں:

لا يلزم منه كون يزيد بن معاوية مغفورا له لكونه منهم إذ الغفران مشروط بكون الإنسان من أهل المغفرة ويزيد ليس كذلك لخروجه بدليل خاص ويلزم من الجمود على العموم أن من ارتد ممن غزاها مغفور له وقد أطلق جمع محققون حل لعن يزيد

یہ ضروری نہیں کی یزید کی مغفرت ہوجائے کیونکہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تھا، جیسا کہ مغفرت مشروط ہے ان لوگوں کے لئے جو مغفرت کے اہل ہوں جبکہ یزید ایسا نہیں ہے اور خاص دلیل کی بیان پر یزید کا معاملہ استثنا ہے لیکن اگر ہم اس روایت کے سلسلے میں ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں کہ اس میں ہر ایک شخص شامل ہے تو پھر ہمیں ہر اس اس لشکر میں شامل ہر اس شخص کو بھی شامل کرنا پڑے گا جو بعد میں مرتد ہوگیا۔ مزید یہ بھی کہ علماء نے یزید پر لعنت کرنا حلال قرار دیا ہے۔ 

فیض القدیر، ج 3 ص 109 حدیث 2811

امام ابن حجر عسقلانی اسی روایت کی شرح میں مزید دو آئمہ ِاہل ِسنت یعنی علام ابن التین اور علامہ ابن المنیر کے الفاظ پر انحصار کرتے ہیں:

قال المهلب في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر وتعقبه بن التين وبن المنير بما حاصله أنه لا يلزم من دخوله في ذلك العموم أن لا يخرج بدليل خاص إذ لا يختلف أهل العلم أن قوله صلى الله عليه و سلم مغفور لهم مشروط بأن يكونوا من أهل المغفرة حتى لو ارتد واحد ممن غزاها بعد ذلك لم يدخل في ذلك العموم اتفاقا فدل على أن المراد مغفور لمن وجد شرط المغفرة فيه منهم

مھلب کا کہنا ہے کہ اس روایت میں معاویہ کے لئے مناقب موجود ہے کیونکہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بحری فتح حاصل کی اور یزید کے لئے بھی کیونکہ اس نے قیصر کے شہر کو فتح کیا۔
ابن التین اور ابن المنی نے جواب دیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ بغیر کسی استثنا کے ہر ایک فرد اس میں شامل ہو کیونکہ اہل ِعلم (علماء) میں اختلاف نہیں کہ مغفرت مشروط ہے یعنی صرف انہی کے لئے ہے جو اس کے اہل ہوں کیونکہ اگر فتح کے بعد اس لشکر میں سے کوئی شخص بعد میں مرتد ہوگیا ہوتو ظاہر ہے وہ ان میں شامل نہ ہوگا جن کی مغفرت ہوچکی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ(اس روایت میں) مغفرت مشروط ہے۔

 فتح الباری، ج 6 ص 102

علماء ِاہل ِسنت کے بیان کردہ عقیدہ اور پیش کردہ مثال ہمیں مزید اچھی طرح سمجھ آتی ہے جب ہم رسول اللہ (ص) کی یہ حدیث پڑھتے ہیں جو کہ اہل ِسنت کی مشہور کتاب ’مسند ابی یعلٰی‘ ج 7 ص 32 میں درج ہے اور جسے کتاب کا حاشیہ لکھنے والے علامہ حسین سالم اسد نے صحیح قرار دیا ہے:

أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : يا معاذ قال : لبيك يا رسول الله قال : بشر الناس أنه من قال : لا إله إلا الله دخل الجنة

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ’او معاذ‘۔ معاذ نے کہا: ’جی اللہ کے رسول‘۔ رسول اللہ (ص) نے کہا: ’لوگوں کو بتا دو کہ جس کسی نے کہا ’لا الہٰ الااللہ‘ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘۔


اگر ہم نواصب کی طرح ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں اور رسول اللہ(ص) کے مندرجہ بالا الفاظ کے ظاہری معنی لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر مسلمان جو کہ ’لا الہٰ الااللہ‘ کہتا ہے اور پھر جھوٹ، چوری چکاری، زناکاری، شراب خوری، رشوت خوری، قتل وغیرہ کرتا ہے تو اسے ایسے اعمال کا حساب نہیں دینا ہوگا اور وہ جنت میں داخل ہوگا! کلمہ پڑھ لینا یقینا ً جنت میں جانے کا اہل بنا دیتا ہے اس وقت تک کے لئے جب تک ہم دیگر تمام اسلامی احکامات پر عمل کرینہیں) تو وہ جنت میں داخل ہوگا‘۔

اگر ہم نواصب کی طرح ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں اور رسول اللہ(ص) کے مندرجہ بالا الفاظ کے ظاہری معنی لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر مسلمان جو کہ ’لا الہٰ الااللہ‘ کہتا ہے اور پھر جھوٹ، چوری چکاری، زناکاری، شراب خوری، رشوت خوری، قتل وغیرہ کرتا ہے تو اسے ایسے اعمال کا حساب نہیں دینا ہوگا اور وہ جنت میں داخل ہوگا! کلمہ پڑھ لینا یقینا ً جنت میں جانے کا اہل بنا دیتا ہے اس وقت تک کے لئے جب تک ہم دیگر تمام اسلامی احکامات پر عمل کری

No comments:

Post a Comment