معاویہ کسی بھی فضیلت سے محروم
اس باب میں معاویہ کا کسی بھی فضیلت سے محروم ہونے پر گفتگو کرینگے اور ہم یہ بات افشاں کرینگے جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں اور خصوصا ً آج کل کے سپاہ ِصحابہ جیسے نواصب اپنے پیروکاروں کو اپنے اصل یعنی معاویہ کا احترام کرنا تو سکھا دیتے ہیں لیکن انہیں اس حقیقت سے ناآشنا رکھتے ہیں کہ ان کے مذہب کی کتابوں میں باقی صحابہ کے متعلق کوئی نہ کوئی فضیلت تو مل جائیگی لیکن معاویہ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جس کی فضیلت میں ایک درست روایت بھی بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کی مذمت میں اتنا مواد موجود ہے کہ جتنا شاید ابلیس کے متعلق بھی نہ ہو۔
آئمہ ِاہل سنت کی گواہیاں کہ معاویہ کی فضیلت میں ایک بھی صحیح روایت موجود نہیں
امام جالال الدین سیوطی اپنی کتاب اللالی مصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، ج 1 ص 424 جبکہ امام ابن جوزی اپنی کتاب الموضوعات، ج 2 ص 24 میں درج کرتے ہیں:

حاکم نے بیان کیا ہے کہ میں نے ابو العباس محمد بن یعقوب بن یوسف سے سنا کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ انہوں نے اسحاق بن اباہیم الحنظلی کو کہتے سنا کہ معاویہ کی فضیلت میں ایک صحیح روایت بھی نہیں ہے۔



اہل ِحدیث مسلک کے قاضی شوکانی اپنی کتاب فواید المجموعہ، ص 147 میں لکھتے ہیں:



اب پیش ِخدمت ہے امام ذھبی کی کتاب سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 132 سے امام ِاہل ِسنت اسحاق بن راھویہ کا فتویٰ:

ابن راھویہ کا قول ہے کہ معاویہ کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) سے ایک بھی صحیح روایت موجود نہیں۔

اب پیش ِخدمت ہے علامہ محمد طاہر الصدیقی الفتنی (متوفی 986 ھ) کے الفاظ جو آج تک کی مشہور ترین شیعہ مخالف کتاب لکھنے والے امام ابن حجر مکی الھیثمی اور کنزالعمال کے مصنف ملا علی متقی الھندی کے شاگرد تھے۔ اپنی کتاب تذکرۃ الموضوعات، ص 100 پر لکھتے ہیں:

معاویہ کی فضیلت میں ایک بھی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں

نواصب کا چہیتہ امام ابن تیمیہ اپنی کتاب منہاج السنہ، ج 4 ص 400 میں اقرار کرتاہے:

لوگوں کی ایک جماعت نے معاویہ کے فضائل گھڑے اور اس سلسلے میں رسول اللہ (ص) سے احادیث بیان کردیں جن میں سے سب جھوٹی ہیں۔

امام ِ اہل ِسنت حاکم نے تو ذور زبردستی کے باوجود اپنی کتاب میں معاویہ کے فضائل کے سلسلے میں ایک باب قائم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ، ج 11 ص 409 میں لکھا ہے:

ابو عبدالرحمٰن السلمی نے کہا کہ میں حاکم کے پاس اس وقت گیا جب وہ امیہ سے چھپ رہے تھے اور اس وجہ سے اپنے گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ معاویہ کی فضیلت میں حدیث بیان کردیں تو آپ اس صورتحال سے نکل آئینگے۔ حاکم نے جواب دیا، میں ایسا نہیں کرسکتا، میں ایسا نہیں کرسکتا۔

امام ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری کی شرح کی کتاب فتح الباری، ج 7 ص 104 میں لکھا ہے:

امام بخاری نے "ذکر معاویہ" کا نام سے باب قائم کیا ہے نہ کہ "فضائل معاویہ" یا "مناقب معاویہ" کیونکہ معاویہ کے متعلق ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں۔۔۔ابن ابی عاصم، ابو عمر غلام ثعلب اور ابع بکر النقاش اور ابن جوزی نے کتاب موضوعات میں معاویہ کے مناقب کے متعلق لکھا ہے پھر اس کے بعد ابن جوزی نے اسحاق بن راھویہ کی رائے درج کی ہے کہ معاویہ کے فضائل میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں اسی لئے بخاری نےاس میں "ذکر معاویہ" کا نام سے باب قائم کیا ہے نہ کہ "فضائل معاویہ" سے۔

شیخ اسماعیل بن محمد العجلونی (متوفی 1162 ھ) نے کتاب کشف الخفاء، ج 2 ص 420 میں لکھا ہے:


علامہ ابو الحسن الکنانی (متوفی 963 ھ) اپنی کتاب تنزیہ الشریعہ المرفوعہ، ج 2 ص 7 میں لکھتے ہیں:



علامہ ابن خلکان نے وفیات الاعیان، ج 1 ص 35 میں اہل ِسنت کی چھ معتبر کتابوں میں سے ایک کے مصنف امام نسائی کے حالات میں بیان کرتے ہیں کہ کیسے معاویہ کے ناصبی پیکروکاروں نے انہیں اپنے پیشوا معاویہ کے فضائل میں حدیث بیان کرنے کے انکار پر ان کے نازک اعضاء پر حملہ کر کے پھوڑ ڈالا اور اس طرح انہیں قتل کرڈالا جبکہ وہ کہتے رہے کہ انہیں معاویہ کے متعلق صرف ایک ہی صحیح حدیث کا علم ہے جس میں رسول اللہ (ص) نے معاویہ کے شکم پر لعنت کی ہے۔
کیا معاویہ کاتب ِوحی تھا؟
جب نواصب کو اپنے اصل کے دفاع میں کچھ نہیں ملتا تو پھر وہ یہی راگ الاپنے لگ جاتے ہیں کہ معاویہ کاتب ِوحی تھا اس لئے اسے کچھ نہیں کہنا چاہیئے۔
جواب نمبر 1: علمائے اہل ِسنت نے معاویہ کا نام کاتب ِوحی کی فہرست میں شمار نہیں کیا
جید علمائے اہل ِسنت نے کاتب ِوحی کے نام یکجا کرتے ہوئے معاویہ کا نام شامل نہیں کیا ، دیکھیئے:
1۔ فتح الباری، ج 2 ص 450
2۔ عمدۃ القاری، ج 9 ص 307
3۔ ارشاد الساری، ج 9 ص 22
جواب نمبر 2: معاویہ کاتب ِوحی نہیں بلکہ کاتب ِدستاویزات تھا؟
علامہ ابن عبد ربہ اپنی کتاب القعد الفرید میں لکھتے ہیں:

علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ اپنے تمام فضائل اور رسول اللہ (ص) سے قرابت داری کے علاوہ کاتب ِوحی بھی تھے جو بعد میں خلیفہ بھی بن گئے۔ عثمان بن عفان کاتب ِوحی تھے۔ علی اور عثمان کی غیر حاضری میں ابن بن کعد اور زید بن ثابت لکھا کرتے تھے اور ان حضرات کے غیر حاضری میں کوئی اور حضرات لکھا کرتے تھے۔ خالد بن سعید اور معاویہ بن ابی سفیان کو دستاویزات لکھنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ مغیرہ بن شعبہ اور الحسین بن نمیر لوگوں کے لئے دستاویزات لکھا کرتے تھے اور یہ دونوں سعید اور معاویہ کی غیر حاضری میں دستاویزات لکھا کرتے تھے۔

اس کے علاوہ امام ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ، ج 6 ص 121 میں لکھا ہے:

مدائنی کے مطابق زید بن ثابت کاتب ِوحی تھے جبکہ معاویہ رسول اللہ (س) کے لئے عربوں کو خطوط لکھا کرتا تھا۔

بالکل اسی طرح امام ذھبی نے تاریخ السلام، ج 4 ص 309 میں لکھا ہے:

مفضل الغلابی نے کہا ہے کہ زید بن ثابت کاتب ِوحی ِرسول اللہ (ص) تھے جبکہ معاویہ رسول اللہ (ص) کے اور عربوں کے درمیاں خطوط وکتابت کیا کرتا تھا۔

جواب نمبر 3: کاتب ِوحی ہونا کوئی فضیلت نہیں کیونکہ ایک مشہور کاتب ِوحی مرتد بھی ہوا ہے
اگر کچھ دیر کے لئے تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے نواصب کا یہ دعویٰ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ معاویہ کاتب ِوحی تھا پھر بھی یہ کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی گارنٹی کہ کاتب ِوحی ایک اچھا انسان ہی ہوگا اور کوئی برا کام نہ کرتا ہوگا کیونکہ ہماری سامنے ابن ابی سرح کی مثال موجود ہے جو کاتب ِوحی تھا لیکن پھر دین ِاسلام کو ترک ہی کرگیا اور مرتد ہوگیا۔
علامہ صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی (متوفی 764 ھ) اپنی کتاب الوافی بالوفیات، ج 17 ص 100 میں لکھتے ہیں:

کاتب ِوحی ابن ابی سرح، عبداللہ بن سعد بن ابی سرح بن الحارث بن الحبیب بن جذیمہ ابو یحیی القرشی العامری اسلام میں فتح سے قبل داخل ہوا اور پھر اس نے ہجرت کی۔ پھر وہ مرتد ہوگیا اور مکہ میں قریش میں چلا گیا۔

امام ابن حجر سعقلانی نے فتح الباری، ج 9 ص 22 میں لکھا ہے:


کیا معاویہ ہادی تھا؟
کاتب ِوحی کی کہانی سے نواصب کو سہارا نہ ملا تو آخر کار وہ معاویہ کے متعلق ایک حدیث پر اکتفا کر ہی لیتے ہیں جو سنن ترمذی میں درج ہے جس میں رسول اللہ (س) نے دعا کہ اے اللہ معاویہ کو ہادی کردے اور لوگوں کو اس کے ذریعے ہدایت دے۔
جواب نمبر 1: معاویہ کی فضیلت تو کوئی صحیح حدیث ہے ہی نہیں
جیسا کہ باب کے ابتداء میں بحث ہوچکی ہے، معاویہ کی فضیلت میں تو کوئی صحیح حدیث موجود ہی نہیں ہے لہٰذا یہ ہادی والی حدیث پر پھر کیونکر بھروسہ کرلیا جائے!
جواب نمبر 2: ہادی والی حدیث جعلی ہے
پہلی بات یہ کہ امام ترمذی نے خود اس حدیث کو حسن غریب قراردیا ہے اور پھر سنن ترمذی کی شرح لکھنے والے علامہ عبدالرحمٰن المبارک پوری نے اس حدیث سے متعلق امام ابن عبدالبر کے الفاظ نقل کئے ہیں:

حافظ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ نہ ہی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ کی صحابیت صحیح ہے اور نہ ہی اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

امام فخرالدین الرازی نے کتاب علال الحدیث، ج 2 ص 362 میں لکھا ہے:


امام ذھبی نے سیراعلام النبلاء، ج 3 ص 126 میں لکھا ہے:


جواب نمبر 3: رسول اللہ (ص) نے تو ابوجہل جیسوں کے لئے بھی دعا کی تھی
اہل ِسنت حضرات اکثر حضرت عمر کی ثناء میں کتاب ریاض النضیرہ، ج 2 ص 13 سے یہ روایت پیش کرتے ہیں:


اس کے علاوہ ہم صحیح بخاری (انگریزی) ج 8 حدیث 406 میں پڑھتے ہیں:

طفیل بن عمرو رسول اللہ (ص) کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول، بنی دوسا نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے اور اسلام لانے سے انکار کردیا ہے لہٰذا ان پر اللہ کے اعذاب کے لئے دعا کریں۔ لوگوں نے خیال کیا کہ رسول اللہ (ص) ان لوگوں کے لئے اللہ کا اعذاب طلب کرینگے لیکن رسول اللہ (ص) نے کہا اے اللہ، بنی دوسا کو ہدایت دے اور انہیں ہمارے قریب لے آ۔

رسول اللہ (ص) محسن ِانسانیت تھے رحمت اللعلمین تھے، وہ ہر مشرک و گناہ گار کی ہدایت کے لئے دعا کیا کرتے تھے، اس کا مطلب یہ نہیں اس میں ان تمام مشرکوں کے لئے ذاتی طور پر کوئی فضیلت ہے۔ یہ رسول اللہ (ص) کی خواہش تھی کہ تمام انسانیت فلاح و ہدایت پا جائے۔ لہٰذا اگر رسول اللہ (ص) نے معاویہ کی ہدایت کے لئے دعا کی بھی ہو، تو وہ ایسے ہی جسیا کہ رسول اللہ (ص) عام مشرکین کے لئے دعا کرتے تھے۔
جواب نمبر 4: عقیدہ ِاہل سنت کہ رسول اللہ (ص)کی ہر دعا قبول نہیں ہوجاتی
جی ہاں، اگر کچھ دیر کو مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ (س)نے معاویہ کی ہدایت کے لئے دعا کی تو امام ابن حجر عسقلانی کے الفاظ جو انہوں نے فتح الباری، ج 11 ص 97 میں درج کیے ہیں، قابل ِذکر ہیں:


جواب نمبر 5: اللہ نافرمانوں کی ہدایت نہیں کرتا
سورہ توبہ، آیت 80 میں ہم پڑھتےہیں:


سنی عالم ِدین عبداللہ یوسف علی کا اس آیت پر حاشیہ قابل ِ ذکر ہے:


اس قرانی آیت اور عبداللہ یوسف علی کے الفاظ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی بھی عادل شخص اس نتیجہ پر باآسانی پہنچ سکتا ہے کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ رسول اللہ (ص) نے معاویہ کی ہدایت کے لئے کوئی دعا کی بھی ہو، معاویہ کے افعال جو تاریخی کتابوں میں درج ہیں اس بات کو واضح کررہے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کی دعا قبول نہ ہوئی ورنہ معاویہ ، علی بن ابی طالب (ع) پر منابر سے گالیوں اور لعنتوں کی کفریہ بدعت ایجاد نہ کرتا، نہ ہی اسلام کے خلاف جاتے ہوئے اپنے باپ کی ناجائز اولاد زیاد کو اپنا سگا بھائی ہونے کا اعلان کرتا، نہ شراب پیتا نہ شراب کا کاروبار کرتا نہ سود خوری کرتا ،صحابہ کرام کا قتل ِعام کرتا نہ مسلمان عورتوں کو بازاروں میں لاتا۔
No comments:
Post a Comment