Friday 11 November 2011

معاویہ کا اسلام میں تبدیلیاں اور دیگر حرام کاریاں کرنا


معاویہ کا اسلام میں تبدیلیاں اور دیگر حرام کاریاں کرنا



پچھلے باب میں ہم نے دیکھا کہ کیسے نواصب معاویہ کو ہادی قرار دینے پر بضد ہیں اس لئے ہم اس باب میں معاویہ کی جانب سے اسلام میں کی گئی من مانی تبدیلیاں اور خود اس کا حرام کاریوں کے ارتکاب پر روشنی ڈالینگے اور پھر نواصب سے پوچھیں گے کہ کیا ہادی ایسے ہوتے ہیں!

معاویہ کا زیاد کو ابو سفیان کا بیٹا قرار دینا شریعت میں پہلی تبدیلی قرار دیا گیا ہے جو معاویہ کو فاسق ثابت کرتا ہے


ابو سفیان کی عادتوں کے مطابق، زیاد بھی ابو سفیان کا طوائفوں سے عیاشیوں کا نتیجا تھا لیکن پھربھی معاویہ نے زیاد کو ابو سفیان کا بیٹا اور اپنا بھائی قرار دے دیا جو کہ شریعت کے سراسر منافی قدم تھا۔ امام جلال الدین سیوطی نے کتاب الدیباج علی مسلم، ص 184 میں لکھتے ہیں:

ادعي زياد بضم الدال مبني للمفعول أي ادعاه معاوية وألحقه بأبيه أبي سفيان بعد أن كان يعرف بزياد بن أبيه لان أمه ولدته على فراش عبيد وهذه أول قضية غير فيها الحكم الشرعي في الاسلام

معاویہ نے زیاد کواپنے باپ ابو سفیان سے منسوب کردیا حالانکہ وہ زیاد بن ابیہ کے نام سے مشہور تھا کیونکہ اس کی ماں نے اسے عبید کے بستر پر جنا تھا اور یہ اسلام میں پہلا حکم ِ شرعی ہے جو تبدیل کیا گیا۔


اپنی دوسری کتاب تاریخ خلفاء، ص 185 میں جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے:

معاویہ نے زیاد بن ابیہ کو منسوب کردیا اور یہ وہ پہلا قدم ہے جہاں رسول اللہ (ص) کے حکم کی خلاف ورزی کی گئی جیسا کہ ثعلبی اور دیگر نے روایت کی ہے۔

امام ِاہل ِسنت احمد بن حنبل کے الفاظ ملاحظہ ہوں کتاب مسائل احمد بن حنبل، ص 89 سے:

امام احمد نے کہا ہے کہ پہلی مرتبہ رسول اللہ (ص) کے جس حکم کی خلاف ورزی ہوئی وہ زیاد کے معاملے میں ہوا

امام ابن عبدالبر نے مشہورتابعی سعید بن المسیب کی گواہی اپنی کتاب الاستذکار، ج 7 ص 169 میں یوں نقل کی ہے:

سعید بن المسیب کا قول ہے کہ پہلی مرتبہ رسول اللہ (ص) کے جس حکم کی خلاف ورزی ہوئی وہ زیاد کے معاملے میں ہوا۔

جس حکم ِشرعی کو معاویہ نے اپنے گھر کی بات سمجھتے ہوئے تبدیل کرنے کی گستاخی کی وہ سورہ احزاب، آیات 4-5 میں درج ہے یعنی:

الله نے کسی شخص کے سینہ میں دو دل نہیں بنائے اور نہ الله نے تمہاری ان بیویوں کوجن سے تم اظہار کرتے ہو تمہاری ماں بنایا ہے اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا بیٹا بنایا ہے یہ تمہارے منہ کی بات ہے اور الله سچ فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتاتا ہے۔
انہیں ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارو الله کے ہاں یہی پورا انصاف ہے سواگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو اور الله بخشنے والا مہربان ہے


فاسق وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرے اور مندرجہ بالا بحث سے ثابت ہوا کہ معاویہ فاسقین کا امام ہے اگر نہیں تو سپاہ ِصحابہ کے نواصب کو دعوت ہے کہ وہ معاویہ کے اس فعل ِحرام کی وجہ بتادیں!


معاویہ نے وراثت کے شرعی قانون کو تبدیل کردیا


نواصب کا امام ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 149 میں لکھتا ہے:

مضت السُنَّة أن لا يرث الكافر المسلم، ولا المسلم الكافر، وأول من ورث المسلم من الكافر معاوية، وقضى بذلك بنو أمية بعده، حتى كان عمر بن عبد العزيز فراجع السنة، وأعاد هشام ما قضى به معاوية وبنو أمية من بعده‏.‏

سنت یہ ہے کہ نہ ہی کافر کسی مسلمان سے وراثت حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان کسی کافر سے۔ معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے اجازت دی کہ مسلمان کافر سے وراثت حاصل کرسکتا ہے لیکن کافر مسلمان سے وراثت حاصل نہیں کرسکتا اور بنی امیہ نے بھی اس کے بعد اسی طرح کیا حتیٰ کہ عمربن عبدلعزیز آئے اور انہوں نے سنت کو بحال کیا لیکن پھر ھشام نے دوبارہ وہی کردیا جو معاویہ اور بنی امیہ کیا کرتے تھے۔

 البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 149

امام ابن قدامہ اپنی مشہور کتاب المغنی۔ ج 7 ص 166 کتاب الفرائض میں لکھتے ہیں:

أجمع أهل العلم على أن الكافر لا يرث المسلم وقال جمهور الصحابة والفقهاء‏:‏ لا يرث المسلم الكافر يروى هذا عن أبي بكر‏,‏ وعمر وعثمان وعلي‏,‏ وأسامة بن زيد وجابر بن عبد الله رضي الله عنهم وبه قال عمرو بن عثمان وعروة‏,‏ والزهري وعطاء وطاوس‏,‏ والحسن وعمر بن عبد العزيز وعمرو بن دينار‏,‏ والثوري وأبو حنيفة وأصحابه‏,‏ ومالك والشافعي وعامة‏,‏ الفقهاء وعليه العمل وروى عن عمر ومعاذ ومعاوية رضي الله عنهم‏,‏ أنهم ورثوا المسلم من الكافر ولم يورثوا الكافر من المسلم

اہل ِعلم کا اس پر اجماع ہے کہ کافر مسلمان سے وراثت حاصل نہیں کرتا۔ صحابہ اور فقہاء کی اکثریت نے کہا ہے کہ مسلمان کافر سے وراثت حاصل نہیں کرتا، یہی بیان کیا گیا ہے ابو بکر، عمر، عثمان، علی، اسامہ بن زید، جابر بن عبداللہ (اللہ سب سے راضی ہو) اور اسی طرح کا قول ہے عمر وبن عثمان، زھری، عطاء، طاوس، حسن، عمرو بن عبد العزیز، عمرو بن دینار، ثوری، ابو حنیفہ اور ان کے صحابہ، مالک، شافعی اور دیگر فقہاء کا اور یہی وہ اصول جس کا ہم سب اتباع کرتے ہیں۔ یہ بیان کیا گیا ہے کہ عمر، معاذ اور معاویہ (رض) کے انہوں نے اجازت دی کہ مسلمان کافر سے وراثت حاصل کر سکے لیکن کافر مسلمان سے وراثت حاصل نہ کرسکے۔

 المغنی۔ ج 7 ص 166 کتاب الفرائض


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے دیت کا شرعی قانون بھی تبدیل کردیا


پچھلے باب میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح نواصب معاویہ کو ہادی بنانے پر تلے ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں اس ہادی کا ایک اور کفریہ کارنامہ۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 139 میں لکھتا ہے:

ومضت السنة‏:‏ أن دية المعاهد كدية المسلم، وكان معاوية أول من قصرها إلى النصف، وأخذ النصف لنفسه‏.

دوسری سنت جس کو ترک کردیا گیا وہ غیر مسلم کی دیت مسلمان کے برابر کرنا ہے لیکن معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے اسے نصف تک کم کردیا جبکہ باقی نصف اپنے لیئے مقرر کردیا۔



نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے مال ِغنیمت کا شرعی قانون بھی تبدیل کردیا


شریعت نے مال ِغنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال جبکہ باقی مال اس فوج میں تقسیم کیا جائے جس نے غزوہ میں حصہ لیا۔ لیکن نواصب کے بانی و ہادی معاویہ نے فیصلہ دیا کہ مال ِغنیمت میں سے سونا اور چاندی علیحدہ کرلیا جائے اور بقیہ مال ِغنیمت کو تقسیم کیا جائے۔ اہل ِسنت کے کئی نامور علماء نے نواصب کے امیر المومنین کی اس بدعت کے متعلق لکھا ہے۔ جیسے ابن عبد البر نے الاستیعاب، ج 1 ص 358 میں لکھا ہے:

عن الحسن قال كتب زياد إلى الحكم ابن عمرو الغفاري وهو على خراسان أن أمير المؤمنين إلى أن يصطفي له الصفراء و البيضاء فلا تقسم بين الناس ذهباً ولا فضة‏.‏

حسن نے روایت کہ ہے کہ زیاد نے حکم بن عمرو الغفاری جو کہ خراسان کا گورنر تھا، کو یہ حکم لکھا کہ امیر المومنین چاہتے ہیں کہ مال ِغنیمت میں سے سونا اور چاندی محفوظ کرلیا جائے اور انہیں لوگوں میں تقسیم نہ کیا جائے۔


اسی تاریخی حقیقت کو مندرجہ ذیل کتابوں میں بھی پڑھا جاسکتا ہے:
1۔ الدرالمنثور، ج 6 ص 234 سورہ 65 آیت 2
2۔ سیراعلام النبلاء، ج 2 ص 475
3۔ المستدراک الحاکم، ج 3 ص 442
4۔ مصنف ابن ابی شیبہ، ج 7 ص 270

بعض کتابوں میں اس واقع کو یوں بیان کیا گیا ہے:

بن حبيب أن زيادا كتب إلى الربيع بن زياد أن أمير المؤمنين كتب إلي أن آمرك أن تحرز البيضاء والصفراء وتقسم ما سوى ذلك

ابن حبیب نے بیان کیا ہے کہ زیاد نے الربیع بن زیاد کو لکھا: 'امیر المومنین نے مجھے یہ حکم لکھا ہے کہ میں تمہیں حکم دوں کہ مال ِغنیمت میں سے سونا اور چاندی محفوظ کرلیا جائے اور باقی کوتقسیم کردیا جائے'۔

الاستیعاب، ج 2 ص 381 ترجمہ نمبر 2579

علامہ محمد بن عقیل الشافعی (متوفی 1350 ھ) نے نصائح کافیہ، ص 131 میں لکھا ہے:

ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ ثقہ راویوں سے بیان کیا ہے کہ معاویہ نے جمعہ کا خطبہ دیا اور کہا کہ پس سارا مال ہمارا ہے اور سارا مال ِغنیمت بھی ہمارا ہے۔ ہم اس میں سے اس شخص کو دینگے جسے ہم چاہینگے اور جسے چاہیں گے اسے نہیں دینگے۔

علامہ محمد بن عقیل نے معاویہ کے جس داداگیری والے خطبہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ہم ان معتبر سنی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں:
1۔ مجمع الزوائد، ج 5 ص 236 حدیث 9199
2۔ مسند ابی یعلیٰ، ج 13 ص 374
3۔ تاریخ الاسلام، ج 4 ص 314
4۔ تاریخ دمشق، ج 59 ص 168

ابن حجر نے مجمع الزوائد میں اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں جبکہ کتاب مسند ابی یعلیٰ کا حاشیہ تحریر کرنے والے علامہ حسین سالم اسد نے لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔

چونکہ بات معاویہ کی مال ِغنیمت کے حوالے سے من مانی، داداگیری و غنڈہ گردی کی ہورہی ہے اس لئے موزوں ہوگا کہ معاویہ کا خمس کے مال کے حوالے سے بھی کچھ بات کرلی جائے۔ امام ابن سعد نے طبقات الکبیر، ج 5 ص 291 میں عمربن عبدالعزیز کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

إسماعيل بن عبد الملك عن يحيى بن شبل قال جلست مع علي بن عبد الله بن عباس وأبي جعفر محمد بن علي فجاءهما آت فوقع بعمر بن عبد العزيز فنهياه وقالا ما قسم علينا خمس منذ زمن معاوية إلى اليوم وإن عمر بن عبد العزيز قسمه على بني عبد المطلب

یحیٰ بن شبل کہتے ہیں کہ میں علی بن عبداللہ بن عباس اور ابو جعفر محمدبن علی کے ساتھ بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے عمربن عبدالعزیز کو گالیاں دیں تو ان دونوں نے اسے منع کیا اور کہا کہ معاویہ کے دور سے لیکر آج تک ہمیں خمس نہیں ملا اور عمر بن عبد العزیز نے ہی بنی عبد المطلب کو خمس دیا ہے۔



نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے شراب نوشی کی


اہل ِسنت کی حدیث کی معتبر کتاب احمد بن حنبل، ج 5 ص 347 میں ہم امیر ِشام یعنی معاویہ کے متعلق پڑھتے ہیں:

حدثنا زيد بن الحباب، حدثني حسين، حدثنا عبد الله بن بريدة، قال دخلت أنا وأبي، على معاوية فأجلسنا على الفرش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبي ثم قال ما شربته منذ حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔

عبداللہ بن بریدہ نے کہا کہ میں اپنے والد کے ہمراہ معاویہ کے پاس گیا تو معایہ نے ہمیں بستر پر بٹھوایا اور ہمارے لئے کھانا منگوایا جو ہم نے کھایا پھر معاویہ نے ہمارے لئے ایک مشروب منگوایا جس میں سے معاویہ نے پہلے پیا پھر ہمیں پینے کی دعوت دی جس پر میرے والد نے کہا کہ رسول اللہ (ص) نے جب سے اسے حرام قرار دیا ہے میں نے اسے کبھی نہیں پیا۔۔۔

 مسند احمد بن حنبل، ج 5 ص 347 حدیث 22991

اس واقع نے نواصب کو اس قدر پریشان کیا ہے کہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی سند کم سے کم حسن اور زیادہ سے زیادہ صحیح ہے جیسا کہ یمن کے سلفی اسکالر شیخ مقبل بن ھادی الواعدی نے اپنی کتاب مسند الصحیح، ص 185 میں اسے حسن قرار دیا ہے۔ علامہ حسن بن علی السقاف آج کے دور کے سنی عالم ِدین ہیں جو 1961 میں پیدا ہوئے اور اردن میں شیخ نووی سینٹر کے سربراہ ہیں اور وہ کئی نامور سنی علماء کے شاگرد رہ چکے ہیں جن میں اہل ِسنت کی حدیث کی معروف کتاب صحیح بن خزیمہ کا حاشیہ تحریرکرنے والے الاعظیمی شامل ہیں۔ شیخ حسن سقاف نے امام ابن جوزی کی کتاب دفوع شبہ التشبیہ کا حاشیہ تحریر کیا ہے جس میں معاویہ کی شراب نوشی والی روایت کے متعلق شیخ سقاف نے کہا ہے کہ اس روایت کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ اب بھی کوئی شک رہے تو جو لنک اوپر موجود ہے اس میں کتاب مسند احمد کا حاشیہ تحریر کرنے والے سلفی عالم ِدین شیخ شعیب الارنؤوط کے اس روایت کے متعلق فیصلہ موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس کے اسناد قوی ہیں۔ اور پھر بھی کوئی ابہام رہے تو قصہ تمام کرنے کے لئے امام ابی بکر الھیثمی نے اس روایت کے متعلق لکھ دیا ہے:

رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح

احمد نے اسے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی صحیح (کتابوں) کے راوی ہیں۔

 مجمع الزوائد، ج 5 ص 554 حدیث 8022

معاویہ کو شراب نوشی کا شوق اس قدر تھا کہ اس نے شراب کے نشے میں مدہوش ہو کر شراب کی تعریف میں اشعار بھی کہے ہیں۔ ہم تاریخ ابن عساکر میں دو شرابی نشے میں دھت دوستوں یعنی معاویہ اور عبداللہ بن الحارث کی داستان پڑھتے ہیں جو اپنے پرانے وقت کو یاد کرتے ہیں اور جن کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کچھ اور ہی قسم کی دوستی تھی جو دو مرد ایک دوسرے سے عموما ً و فطرتا ً نہیں کیا کرتے:

عنبسہ بن عمرو نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن الحارث بن امیہ بن عبدشمس معاویہ کے پاس آیا تو معاویہ اس کے اتنا قریب آگیا کہ معاویہ کے گھٹنے عبداللہ کے سر کو چھو رہے تھے، پھر معاویہ نے عبداللہ سے پوچھا: 'تم میں اب کیا باقی رہ گیا ہے؟'۔ اس نے جواب دیا کہ باخدا میرے پاس اب کچھ نہیں رہ گیا، میرا اچھا اور برا سب چلا گیا ہے۔ معاویہ نے کہا کے باخدا، اچھائی نے تمہارا دل تو چھوڑدیا لیکن برائی اب بھی بہت سی برائی رہتی ہے تو اب ہم تمارے لئے کیا کرسکتے ہیں؟ عبداللہ نے جواب دیا کہ اگر تم نے کچھ اچھا فعل کیا تو میں شکریہ بھی نہیں کہونگا لیکن اگر کوئی برا کام کیا تو میں تمہیں الزام دونگا۔ معاویہ نے کہا، باخدا، تم میرے ساتھ انصاف نہیں کررہے۔ عبداللہ نے جواب دیا، میں نے تمہارے ساتھ انصاف کیا کب ہے؟ باخدا میں نےتمہارے بھائی حنظلہ کا سر زخمی کردیا اور میں نے اس کا ہرجانہ بھی ادا نہ کیا۔ میں یہ اشعار پڑھا کرتا تھا:

صخر بن حرب۔ ہم تمہیں مالک تسلیم نہیں کرتے، ہمارے علاوہ کسی اور پر جاکر حکمرانی کرو، تم ہمارے مالک نہیں ہو۔

اور تم کہا کرتے تھے (اشعار):

میں نے شراب پی حتیٰ میں اپنے یار کے اوپر بوجھ بن گیا، اور میرا ایک یار ہوا کرتا تھا۔

پھر عبداللہ نے معاویہ کے اوپر چھلانگ لگائی اور اس کو مارنے لگا جبکہ معاویہ آگے ہوا اور قہقہا مارنے لگا۔

 تاریخخ ابن عساکر، ج 27 ص 312 ترجمہ نمبر 3230


نواصب کا 'ہادی' معاویہ شراب کی تجارت کیا کرتا تھا


اسمگلر معاویہ! محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی شیعہ مخالف کتاب تحفہءاثنا عشریہ، ص 638 میں بیان کرتے ہیں:

عبادۃ ابن صامت شام میں تھے کہ انہوں نے معاویہ کے قافلے کو دیکھا جس میں اونٹوں کی قطاریں موجود تھیں۔ عبادۃ نے دریافت کیا کہ یہ سب کیا ہے۔ جس پر لوگوں نے انہیں بتایا کہ یہ شراب ہے جو معاویہ نے فروخت کرنے کی غرض سے بھیجی ہے۔ عبادۃ ایک چھری لے کر آئے اور اونٹوں پر لدی شراب کو چاک کردیا حتیٰ کہ تمام شراب بہ گئی۔
 تحفہءاثنا عشریہ، ص 638

اگرچہ کہ یہ واقع اہل ِسنت کی معتبر کتابوں جن میں تاریخ ابن عساکر، ج 26 ص 97 اور سیراعلام النبلاء، ج 2 ص 10 میں درج ہے لیکن غالبا ً ان کتابوں میں تحریف کرکے معاویہ کا نام مٹا دیا گیا ہے اور اس کی جگہ "فلاں" کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی یہ حقیقت کہ صحابی عبادۃ ابن صامت نے امیر ِشام (یعنی معاویہ) کی شراب بہا دی اب بھی موجود ہے۔ پھر یہ بھی عرض کردیا جائے کہ شیخ شعیب الارنؤوط نے سیراعلام النبلاء کے حاشیہ میں اس واقع کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

اور علامہ متقی الہندی نے اسی سے ملتی جلتی روایت نقل کی ہے:

محمد بن کعب القرظی کہتے ہیں: عبدالرحمن بن سہل انصاری نے حضرت عثمان کے دور میں ایک جنگ میں شرکت کی اور اُس وقت معاویہ ابن ابی سفیان شام کا حاکم تھا۔ پھر وہاں سےان کے سامنے سے شراب کے بھرے ہوئے کنستر گذرے۔ اس پر وہ اپنا نیزہ پکڑ کر آگے آئے اور ہر شراب کے کنستر میں انہوں نے نیزہ گھونپ دیا۔ اس پر غلاموں نے مدافعت کی، حتی کہ معاویہ ابن ابی سفیان کو اسکی خبر ہوئی۔ معاویہ ابن ابی سفیان نے کہا کہ اسے چھوڑ دو کہ یہ بڈھا شخص اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے۔ اس پر عبدالرحمان نے کہا:اللہ کی قسم، معاویہ جھوٹ بول رہا ہے۔ میں نے ہرگز اپنے ہوش و حواس نہیں کھوئے ہیں، مگر اللہ کے رسول ص نے ہمیں شراب پینے سے منع کیا تھا۔ اللہ کی قسم اگر میں زندہ رہوں اور مجھے معاویہ وہ کرتے ہوئے نظر آ جائے جس سے رسول ص نے منع کیا تھا، تو پھر یا تو میں معاویہ کی انتڑیوں کو کھول دوں گا یا پھر خود مارا جاؤں گا۔
 کنز الاعمال، جلد 5، صفحہ 713، حدیث 13716

یہی روایت ذیل کی اہلسنت کتب میں بھی موجود ہے:
1۔ فیض القدیر، جلد 5، صفحہ 462، روایت 7969
2۔ تاریخ دمشق، جلد 34، صفحہ 420
3۔ اسد الغابہ، جلد 1، صفحہ 699، بہ عنوان عبدالرحمان بن سہل بن زید
4۔ الاصابہ، جلد 4، صفحہ 313، روایت 5140


نواصب کا 'ہادی' معاویہ بت پرستوں کے لئے بت بنوا کر فروخت کیا کرتا تھا تاکہ بتوں کی پرستش میں کوئی مشکلات درپیش نہ آئیں


اہل ِعلم جانتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت کہ چند مشہور بت پرست خاندان اسلام میں دل سے داخل نہیں ہوئے تھے بلکہ اپنے مذموم مقاصد کی غرض سے اسلام قبول کر بیٹھے تھے جبکہ اس کے بعد بھی ان کا دل اپنے پرانے مذہب کی طرف ہی مائل رہا اور اسی لئے موقع پاتے ہی اسلام کو ہر طرح سے بدنام کرتے رہے اور نقصان پہنچاتے رہے لیکن افسوس کہ احمقوں کے نزدیک وہ اسلام ہی کی موت مرے۔ اس دوران ان کے اپنے پرانے بت پرست دوستوں و رشتہ داروں سے مراسم رہے۔ معاویہ کے متعلق مندرجہ ذیل تاریخی حقیقت پڑھنے کے بعد کوئی بھی باشعور انسان معاویہ کو بھی انہی لوگوں کی فہرست میں شمار کریگا جن کا ذکر ابھی ہم نے کیا۔

اہل ِسنت کےامام سرخسی اپنی وجہ ِشہرت و عزت کتاب یعنی المبسوط، ج 7 ص 269 میں لکھتے ہیں:

عن مسروق - رحمه الله - قال : بعث معاوية - رضي الله عنه - بتماثيل من صفر تباع بأرض الهند فمر بها على مسروق - رحمه الله - قال : والله لو أني أعلم أنه يقتلني لغرقتها ولكني أخاف أن يعذبني فيفتنني والله لا أدري أي الرجلين معاوية رجل قد زين له سوء عمله أو رجل قد يئس من الآخرة فهو يتمتع في الدنيا وقيل : هذه تماثيل كانت أصيبت في الغنيمة فأمر معاوية - رضي الله عنه - ببيعها بأرض الهند ليتخذ بها الأسلحة والكراع للغزاة فيكون دليلا لأبي حنيفة - رحمه الله - في جواز بيع الصنم . والصليب ممن يعبده

مسروق (رحمتہ اللہ) نے کہا ہے کہ معاویہ نے تانبے کے بنے بت فروخت کرنے کے مقصد سے ہندوستان بھجوائے اور انہوں (مسروق) نے وہ اگت پہنچا دیئے۔ مسروق کہتے ہیں کہ خدا کی قسم، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ معاویہ مجھے قتل کردیگا تو میں وہ تمام بت پانی میں ڈبو ڈالتا لیکن مجھے معلوم تھا کہ معاویہ مجھے اذیتیں دیتے ہوئے قتل کردیگا۔ خدا کی قسم مجھے سمجھ نہیں آتا کہ معاویہ کس قسم کا آدمی ہے، آیا وہ ایسا انسان ہے کہ جسے تمام برائیاں اچھی نظر آتیں ہیں یا پھر وہ آخرت سے اتنا خوفزدہ ہے کہ وہ اس دنیا میں بھرپور لطف اٹھانا چاہتا ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ وہ بت مال ِغنیمت کے طور پر حاصل ہوئے تھے تو معاویہ نے انہیں ہندوستان میں فروخت کرنے کا حکم دیا تاکہ اس کی آمدنی سے ہتھیار اور اونٹ خریدے جاسکیں اور اسی کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ نے عبادت کے لئے بت اور صلیب کی فروخت کی اجازت دی ہے۔



نواصب کے 'ہادی' معاویہ کے شوق! اپنے دربار میں ایک عورت کو برہنہ کر کے اس کی شرم گاہ کا معائنہ


نواصب کا امام ابن کثیر، البدایہ والنہایہ میں ایک واقع درج کرتا ہے:

ابن عساکر نے معاویہ کے غلام خدیج الحفی کے حالات میں بیان کیا ہے کہ معاویہ نے ایک سفید رنگ خوبصورت لونڈی خریدی اور میں اسے بے لباس کر کے معاویہ کے پاس لے گیا اور معاویہ کے پاس چھڑی تھی اور آپ نے اس کی متاع یعنی فرج کی طرف جھکنے لگے اور کہنے لگے یہ متاع کاش میرے لئے متاع ہوتی۔ اسے یزید بن معاویہ کے پاس لے جا، پھر کہنے لگے نہیں ربیع بن عمرو القرشی کو میرے پاس بلا لاؤ، وہ فقیہ تھے۔ اور وہ جب معاویہ کے پاس آئے تو معاویہ نے کہا اس لونڈی کو برہنہ حالت میں میرے پاس لایا گیا ہے اور میں نے اسے ادھر ادھر دیکھا ہے اور میں نے چاہا کہ میں اسے یزید کے پاس بھیج دوں۔ انہوں نے کہا کیہ اے امیر المومنین، ایسا نہ کیجیئے، یہ اس کے مناسب ِحال نہیں۔ معاویہ نے کہا آپ کی رائے بہت اچھی ہے۔ راوی بیا ن کرتا ہے کہ پھر معاویہ نے اسے حضرت فاطمہ بنت رسول (ص) کے غلام عبداللہ بن مسعد فزاری کو بخش دیا جو سیاہ فام تھا اور معاویہ نے اس سے کہا کہ اس سے اپنے بچوں کو سفید بنا لے۔
 البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 992 (نفیس اکیڈمی کراچی)۔

اس واقع کے معتبر ہونے کی بابت یہ بتادیا جائے کے نواصب کے امام ابن کثیر نے اس واقع کو معاویہ کی عقلمندی اور سمجھ داری کی ایک مثال قرار دیا ہے۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ کا لوگوں کو حکم کہ حرام کھاؤ اور ایک دوسرے کو ناحق قتل کرو


اہل ِسنت میں قرآن کے بعد معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی صحیح مسلم سے یہ حوالہ ملاحظہ ہو:

۔۔۔ ‏.‏ فقلت له هذا ابن عمك معاوية يأمرنا أن نأكل أموالنا بيننا بالباطل ونقتل أنفسنا والله يقول ۔۔۔

عبدالرحمٰن بن عبدرب الکعبہ سے روایت ہے کہ میں مسجد میں گیا، وہاں عبداللہ بن عمرو بن العاص کعبہ کے سائے میں بیٹھا تھے اور لوگ ان کے پاس جمع تھے، میں بھی گیا اور بیٹھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ (ص) کے ساتھ تھے تو ایک جگہ اترے تو کوئی اپنا ڈیرہ درست کرنے لگا، کوئی تیر مارنے لگا کوئی اپنے جانوروں میں تھا کہ اتنے میں رسول اللہ (ص) کے پکارنے والے نے آواز دی کہ نماز کے لئے اکھٹے ہوجاؤ۔ ہم اس رسول اللہ (ص) کے پاس جمع ہوئے آپ (ص) نے فرمایا مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس پر ضروری نہ ہو اپنی امت کو جو بہتر بات اس کے معلوم ہو بتانا اور جو بری بات ہو اس سے ڈرانا اور ہماری یہ امت، اس کے پہلے حصے میں تو سلامتی ہے لیکن آخری حصے میں بلا ہے اور وہ باتیں ہیں جو تم کو بری لگیں گی اور ایسے فتنے آینگے کہ ایک فتنہ دوسرے فتنہ کو ہلکا کردے گا اور ایک فتنہ آئیگا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے پھر وہ فتنہ چلا جائیگا اور دوسرا فتنہ آئیگا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے۔ پھر جو کوئی چاہے کہ جہنم سے بچے اور جنت میں جائے تو اسے چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ اور روز ِآخرت پر یقین رکھے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جیسا وہ چاہتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ کریں ۔ اور جو شخص کسی امام سے بیعت کرے اور اسے اپنا ہاتھ دے اور دل سے اس کی تابعداری کی نیت کرے تو اگر طاقت ہو تو اس کی اطاعت کرے ۔ اب اگر دوسرا شخص (امامت کا دعویٰ میں) سامنے آجائے تو اس کی گردن ماردو۔ یہ سن کر میں عبداللہ بن عمرو بن العاص کے پاس گیا اور میں نے ان سے کہا کہ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں بتاؤ کہ تم نے یہ سب رسول اللہ (ص) سے سنا ہے؟ انہوں نے اپنے کانوں اور دل کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کہ میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے۔ میں نے کہا تمہارے چچا کا بیٹا معاویہ ہمیں ایک دوسرے کا مالِ ناحق کھانے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال نا حق نہ کھاؤ مگر یہ کہ آپس کی خوشی سے تجارت ہو اور آپس میں کسی کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔ (سورۃ 4 آیت 29)۔

یہ سن کر عمرو بن العاص تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر کہا معاویہ کی اطاعت کرو اس کام میں جو اللہ کے حکم کے موافق ہو اور جو کام اللہ کے حکم کے خلاف ہو اس میں معاویہ کا کہنا نہ مانو۔

 صحیح مسلم، کتاب الامارہ، حدیث 4882


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے سود خوری کی


موطا مالک میں ہم پڑھتے ہیں:

وحدثني عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، أن معاوية بن أبي سفيان، باع سقاية من ذهب أو ورق بأكثر من وزنها فقال أبو الدرداء سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذا إلا مثلا بمثل ‏.‏ فقال له معاوية ما أرى بمثل هذا بأسا ‏.‏ فقال أبو الدرداء من يعذرني من معاوية أنا أخبره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ويخبرني عن رأيه لا أساكنك بأرض أنت بها ‏.‏ ثم قدم أبو الدرداء على عمر بن الخطاب فذكر ذلك له فكتب عمر بن الخطاب إلى معاوية أن لا تبيع ذلك إلا مثلا بمثل وزنا بوزن ‏.‏

عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان نے سونے یا چاندے کا ایک پیالہ اس سے زیادہ سونے یا چاندی کے عوض خریدا۔ حضرت ابودرداء نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو اس قسم کی تجارت کرنے سے منع فرماتے سنا ہے اور فرماتے تھے کہ برابر برابر ہو۔ معاویہ نے حضرت ابودرداء سے کہا کہ میرے خیال میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت ابودرداء نے کہا کہ معاویہ کے مقابلہ میں میرا غذر کون قبول کریگا، میں اسے رسول اللہ (ص) کا حکم بتا رہا ہوں اور یہ مجھے اپنی رائے بتاتا ہے۔ میں اس ملک میں نہیں رہونگا جس میں تم رہتے ہو۔ حضرت ابودرداء پھر حضرت عمر کے پاس آگئے اور یہ بات انہیں بتائی تو حضرت عمر نے معاویہ کو لکھا کہ ایسی بیع نہ کیا کرو جس میں برابر برابر نہ ہوں۔

 موطا مالک، کتاب البیوع، حدیث 1324

ذرا معاویہ کے کفر کا انداز تو دیکھیے۔ صحابی ابو درداء اسے رسول اللہ (ص) کا قول بتا رہے ہیں اور معاویہ کی بے شرمی و ھٹ دھرمی کہ وہ کہے کہ مجھے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اگر معاویہ میں ذرہ بھی شرم، خوف ِخدا اور عشق ِرسول ہوتا تو وہ حضرت ابو درداء اور حضرت عمر کی جانب سے تنقید و تنبیہ کے بعد سدھر جاتا لیکن جس انسان کی رگوں میں خون کی جگہ بغض ِمحمد و آل ِمحمد دوڑ رہا ہو تو اسے شرم و حیاء جیسی صفات سے کیا غرض۔ ہم صحیح مسلم میں پڑھتے ہیں:

عن أبي قلابة، قال كنت بالشام في حلقة فيها مسلم بن يسار فجاء أبو الأشعث قال قالوا أبو الأشعث أبو الأشعث ‏.‏ فجلس فقلت له حدث أخانا حديث عبادة بن الصامت ‏.‏ قال نعم غزونا غزاة وعلى الناس معاوية فغنمنا غنائم كثيرة فكان فيما غنمنا آنية من فضة فأمر معاوية رجلا أن يبيعها في أعطيات الناس فتسارع الناس في ذلك فبلغ عبادة بن الصامت فقام فقال إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن بيع الذهب بالذهب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعير بالشعير والتمر بالتمر والملح بالملح إلا سواء بسواء عينا بعين فمن زاد أو ازداد فقد أربى ‏.‏ فرد الناس ما أخذوا فبلغ ذلك معاوية فقام خطيبا فقال ألا ما بال رجال يتحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أحاديث قد كنا نشهده ونصحبه فلم نسمعها منه ‏.‏ فقام عبادة بن الصامت فأعاد القصة ثم قال لنحدثن بما سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كره معاوية - أو قال وإن رغم - ما أبالي أن لا أصحبه في جنده ليلة سوداء ‏.‏ قال حماد هذا أو نحوه‏.‏

ابو قلابہ سے روایت ہے کہ میں شام میں چند لوگوں کے بیچ بیٹھا تھا کہ اتنے میں ابوالاشعث آیا۔ لوگوں نے کہا ابوالاشعث ابوالاشعث، تو وہ بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم میرے بھائی سے عبادہ بن صامت کی حدیث بیان کرو۔ اس نے کہا اچھا، ہم نے ایک جہاد کیا جس میں معاویہ سردار تھا تو بہت چیزیں غنیمت میں حاصل کیں، ان میں ایک چاندی کا برتن بھی تھا۔ معاویہ نے ایک آدمی کو حکم دیا اس کے بیچنے کا تاکہ لوگوں کی تنخواہ ادا ہوسکے۔ لوگوں نے اس کے لینے میں جلدی کی۔ یہ خبر عبادہ بن صامت کو پہنچی تو وہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے وہ سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے اور گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جو کو جو کے بدلے ، کھجور کو کھجور کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے سے بیچنے سے منع فرمایا کرتے تھے مگر برابر برابر نقد تو پھر جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو اس نے ربا کا ارتکاب کیا۔ یہ سن کر لوگوں نے جو لیا تھا واپس کردیا۔ معاویہ کو جب یہ خبر پہنچی تو وہ کھڑا ہوگیا اور خطبہ دیا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) سے وہ احادیث بیان کرتے ہیں جنہیں ہم نے کبھی نہیں سنا جبکہ ہم نے رسول اللہ (ص) کو دیکھا اور ان کی صحبت میں رہے۔ پھر عبادہ کھڑے ہوئے اور وہ قصہ دوبارہ بیان کیا اور اس کے بعد کہا کہ ہم تو وہ حدیث جو ہم نے رسول اللہ (ص) سے سنی ہے اسے ضرور بیان کرینگے چاہے اس سے معاویہ کو برا لگے یا معاویہ کی ذلت ہو۔ مجھے پروا نہیں اگر میں معاویہ کے ساتھ نہ اس کے لشکر میں تاریک رات میں نہ رہوں۔ حماد نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔

 صحیح مسلم، کتاب المساقہ، حدیث 4145

تو ہم نے دیکھا کہ معاویہ نے ایک اور خرید و فروخت کا سلسلہ کیا جو برابر برابر کی بنیاد پر نہ تھا جیسا کہ رسول اللہ (ص) نے حکم دیا تھا۔ اس پر معاویہ کی ھٹ دھرمی کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ رسول اللہ (ص) سے وہ احادیث بیان کرتے ہیں جنہیں ہم نے کبھی نہیں سنا۔ معاویہ اس معاملہ میں انجان کس طرح بن رہا ہے جبکہ ہم پہلے پڑھے چکے ہیں کہ حضرت عمر کے زمانے میں گورنر کی حیثیث سے معاویہ نے اسی طرح کی خرید و فروخت کی تھی جس پر حضرت ابودرداء نے مسئلہ کا شرعی حل معاویہ کے سامنے بیان کردیا تھا اس پر حضرت عمر نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ جس کو حرام کاری کو شوق ہو وہ بہانے بنا ہی لیتا ہے!

اس کی علاوہ اہل ِسنت کی امام ابو جعفر الطحاوی نے شرح معانی الآثار میں تصدیق کی ہے کہ معاویہ سود خور تھا:

معاویہ نے ہیرے اور یاقوت کا ایک ہار 4600 درہم میں خریدا۔ جب معاویہ منبر پر بیٹھا، حضرت عبادۃ ابن صامت کھڑے ہوگئے اور کہا: 'نہیں، معاویہ نے ایسا معاہدہ کیا ہے جس کی بنیاد سود پر ہے۔

یاد رہے کہ رسول اللہ (ص) نے اس قسم کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے۔ صحیح مسلم میں ہم پڑھتے ہیں:

قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء ‏.‏

جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (س) نے سود لینے اور دینے والے، اسے لکھنے والے اور دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے اور یہ سب لوگ برابر ہیں۔


رسول اللہ (ص) کی اس حدیث کی روح سے معاویہ ملعونوں کا سردار ہے کیونکہ اس نے تو رسول اللہ (س) کے الفاظ کو جانتے ہوئے بھی رد کیا اور پھر بھی وہ کام کیا جسے رسول اللہ (ص) نے حرام قرار دیا تھا۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے نماز ِعید میں تبدیلیاں کردیں


امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب تاریخ خلفاء، ص 200 میں لکھتے ہیں:

زھری نماز ِعید کے حوالے سے کہتے ہیں کہ نماز سے قبل خطبہ دینے والا پہلا شخص معاویہ ہے۔

امام شافعی اپنی کتاب ’الام‘ ج ا ص 392 میں لکھتے ہیں

أخبرنا الشافعي قال أخبرنا إبراهيم قال حدثني داود بن الحصين عن عبد الله بن يزيد الخطمي ‏(‏أن النبي -صلى الله عليه وسلم- وأبا بكر وعمر وعثمان كانوا يبتدئون بالصلاة قبل الخطبة حتى قدم معاوية فقدم الخطبة‏)‏۔

امام شافعی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن یزید الخطمی کا قول ہے کہ رسول اللہ (ص)، ابو بکر، عمر اور عثمان خطبہ سے قبل نماز ادا کرتے تھے حتی کہ معاویہ آیا اور اس نے خطبہ کو نماز سے قبل کردیا


ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 139 میں لکھتے ہیں:

وقال قتادة‏:‏ عن سعيد بن المسيب‏:‏ أول من أذن وأقام يوم الفطر والنحر معاوية‏.

قتادہ نے سعید بن المسیب سے بیان کیا ہے کہ معاویہ وہ پہلا شخص تھا جس نے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دوران اذان اور اقامت کہی۔


امام ابن حجر عقسلانی نے فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج 2 ص 529 میں اس معاملہ کو مزید واضح کیا ہے:

اس بات پر اختلاف ہے کہ کس نے نماز ِعید میں اذان متعارف کرائی۔ ابن شیبہ نے ایک صحیح سند سے اس کام کو معاویہ کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ شافعی کا کہنا ہے کہ یہ بصرہ میں ابن زیاد نے کیا اور داؤد کا کہنا ہے اسے مروان نے شروع کیا، لیکن روایات کی اکثریت اس سے متفق نہیں۔ اسے معاویہ نے شروع کیا بالکل اسی طرح جس طرح اس نے نماز ِعید سے قبل خطبہ شروع کردیا تھا۔

تو اس مرتبہ معاویہ کی مرضی کی تلوار نماز ِعید پر گری۔ جی ہاں ورنہ اصل طریقہ کیا ہے وہ ہم صحیح مسلم میں یوں پڑھتے ہیں:

وحدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبد الملك بن أبي سليمان، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة يوم العيد فبدأ بالصلاة قبل الخطبة بغير أذان ولا إقامة ثم قام متوكئا على بلال فأمر

حضرت جابر بن عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ص) کے ساتھ نماز ِعید ادا کی۔ انہوں (ص) نے خطبہ سے قبل نماز ادا کی بغیر اذان اور اقامت کے۔

 صحیح مسلم، حدیث 2085

ویسے تو رسول اللہ (ص) کا مندرجہ بالا عمل نواصب کو بتانے کے لئے کافی ہونا چاہئے کہ جس معاویہ کا وہ احترام و تکریم کرتے ہیں وہ کتنا بڑا گستاخ ِرسول تھا کہ اس نے رسول اللہ (ص) کے عمل کو مکمل اور حجت نہ تسلیم کیا اور خود ہی شریعت میں تبدیلیاں کردیں لیکن پھر بھی ہم نماز ِعید کا درست طریقہ کار امام مالک کے حوالے سے بھی پیش کیے دیتے ہیں۔ موطا مالک، کتاب العیدین، حدیث 431:

حدثني يحيى، عن مالك، أنه سمع غير، واحد، من علمائهم يقول لم يكن في عيد الفطر ولا في الأضحى نداء ولا إقامة منذ زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليوم ‏.‏ قال مالك وتلك السنة التي لا اختلاف فيها عندنا ‏.‏

امام مالک نے کتنے علماء کو فرماتے ہوئے سنا کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی رسول اللہ (ص) کے زمانے سے آج تک اذان و اقامت نہیں ہوئی۔ امام مالک نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی سنت ہے جس میں ہمارے نزدیک کوئی اختلاف نہیں۔

 موطا مالک، کتاب العیدین، حدیث 431


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے نماز ِپنجگانہ میں تکبیر کی تعداد گھٹادی


معاویہ نے صرف نماز ِعیدین میں تبدیلیاں کرنے کی جسارت نہیں کی بلکہ نماز ِپنجگانہ بھی معاویہ کے شر سے محفوظ نہ رہ سکی۔ امام ِاہل ِسنت بدرالدین الاعینی اپنی شہرائے آفاق کتاب عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری، ج 6 ص 58 میں لکھتے ہیں:

وقال الطبري إن أبا هريرة سئل من أول من ترك التكبير إذا رفع رأسه وإذا وضعه قال معاوية

طبری نے کہا ہے کہ ابو ھریرہ سے سوال کیا گیا اس پہلے شخص کے متعلق جس نے سر اٹھانے اور سجدہ کے دوران تکبیر ختم کردی، تو انہوں نے جواب دیا، معاویہ۔


جلال الدین سیوطی اسی طرح اپنی کتاب الوسائل فی مسامرۃ الاوائل، ص 164 میں لکھا ہے:

أول من نقص التكبير معاوية

سب سے پہلا شخص جس نے تکبیر کم کردیں وہ معاویہ ہے


علامہ اشفاق الرحمٰن السندی نے موطا مالک کی شرح، ص 61 میں لکھا ہے:

طبرانی نے ابو ھریرہ سے روایت کی ہے کہ سب سے پہلا شخص جس نے تکبیر کم کردیں وہ معاویہ ہے


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے نماز ِپنجگانہ میں اقامت گھٹادی


امام ذھبی کتاب تنقیح التحقیق، ج 1 ص 113 میں لکھتے ہیں:

وقال النخعي : أول من نقص الإقامة معاوية

النخعی نے کہا ہے کہ معاویہ وہ پہلا شخص ہے جس نے اقامت میں کمی کردی


آگے امام ذھبی لکھتے ہیں:

مجاہد نے کہا ہے کہ اذان اور اقامت دو دو ہوا کرتی تھیں لیکن جب بنی امیہ نے حکومت کی تو انہوں نے ایک اقامت کردی۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ کا فتویٰ کہ آدمی ایک وقت میں دو بہنوں کو بیویوں کی طرح رکھ سکتا ہے


امام جلال الدین سیوطی نے تفسیر در المنثور، ج 2 ص 447 سورہ 4 آیت 23 میں لکھتے ہیں:

قاصم بن محمد نے بیان کیا ہے کہ معاویہ سے سوال کیا گیا کہ آیا یہ جائز ہے کہ ایک آدمی ایک وقت میں دو بہنوں کے ساتھ شادی کر لے۔ معاویہ نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ بات سن کر نعمان بن بشیر نے کہا کہ آپ نے یہ فتویٰ صادر کردیا ہے؟ جس پر معایہ نے جواب دیا، ہاں۔


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے السلام میں ایک قسم اور ایک گواہی کی بدعت متعارف کرائی


دیوبند مسلک میں قابل ِاحترام سمجھے جانے والے مفتی علامہ محمد عبد الحئی لکھنوی (متوفی 1304 ھ) نے موطا امام محمد کی شرح میں لکھا ہے:

ذكر ذلك ابن ابي ذئب عن ابن شهاب الزهري قال سألته عن اليمين مع الشاهد فقال : بدعة وأول من قضى بها معاوية

ابن ابی ذئب نے بیان کیا ہے کہ میں نے ابن شھاب الزہری سے قسم اور گواہ کے متعلق سوال کیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ بدعت ہے جسے سب سے پہلے معاویہ نے ایجاد کیا۔

 تعلیق المجید شرح موطا محمد، ص 363

حنفی مسلک میں فقہ کی بلند پایہ کتاب شرح الوقایہ میں ہم پڑھتے ہیں:

إذا أنكر الخصم يرد اليمين على المدعي وعندنا هذا بدعة وأول من قضى بها معاوية

اگر جوابدار انکار کردے تو مدعی کو حلف لینا پڑے گا اور یہ بدعت ہے جسے سب سے پہلے معاویہ نے ایجاد کیا۔

 شرح اوقایہ، ج 3 ص 205

امام سعد الدین تفتازانی لکھتے ہیں:

وذكر في المبسوط أن القضاء بشاهد ويمين بدعة وأول من قضى بها معاوية

المبسوط میں ہے کہ ایک حلف اور گواہ کی بنیاد پر فیصلہ دینا بدعت ہے جسے سب سے پہلے معاویہ نے ایجاد کیا۔

 توضیح شرح تلویح، ص 430


نواصب کے 'ہادی' معاویہ نے چور کی شرعی سزا کا اطلاق ترک کردیا


اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں بعض مخصوص جرائم کی سزائیں خود صادر فرمائی ہیں جیسے سرقہ کی سزا ہاتھ کاٹنا۔ ہم سورہ المائدہ آیت 33 میں پڑھتے ہیں:

اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا بدلہ اور الله کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور الله غالب حکمت والا ہے

لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب ایک مرتبہ معاویہ کے ہاتھ ڈاکوؤں کا گروہ لگا اور معاویہ نے اس گروہ پر مندرجہ بالا سزا کا کیا سوائے ایک شخص کے جسے معلوم تھا کہ معاویہ کو (مزید) بیوقوف کس طرح بنانا ہے۔ اس نے چند واحیات اشعار سنائے اور سپاہ ِصحابہ کا ناصبی پیشوا اللہ تعالی ٰ کی جانب سے وضع شدہ حد جاری کرنا بھول گیا۔ امام ِ اہل ِسنت علی بن محمد حبیب البصری البغدادی جو الماوردی (متوفی 450 ھ) کے نام سے مشہور ہیں اس کتاب میں جو ان کی وجہ شہرت ہے یعنی احکام السلطانیہ، ص 247 (انگریزی ترجمہ) میں بیان کرتے ہیں:

وحكي أن معاوية أتى بلصوص فقطعهم حتى بقي واحد منهم فقدم ليقطع فقال من الطويل ۔۔۔۔ فقال معاوية كيف أصنع بك وقد قطعت أصحابك? فقالت أم السارق اجعلها من جملة ذنوبك التي تتوب إلى الله منها فخلي سبيله، فكان أول حد ترك في الإسلام.

بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ معاویہ نے چوروں کے ایک گروہ کے ہاتھ کاٹ دیئے لیکن جب ان میں سے آخری چور کے ہاتھ کاٹنے کی باری آئی تو اس نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھیے:

اے امیر المومنین میری التجاء سنیئے
میرے دائیں ہاتھ کو کاٹ کر اسے اذیت نہ دیں
اگر کٹ گیا تو میرا ہاتھ ایک خوبصورت عورت کی طرح ہوجائیگا
اور ایک خوبصورت عورت کسی بےشرمی کے لئے عیاں نہیں ہوتی
دنیا میں پھر اچھائی ہی کیا رہ جائیگی
اگر دائیاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ سے جدا ہوجائے؟
معاویہ نے کہا کہ اب میں کیا کرسکتا ہوں جب میں نے تمہارے ساتھیوں کے ہاتھ کاٹ بھی دیئے۔ جس پر چور کی ماں نے کہا کہ آپ اسے ان گناہوں میں سے ایک کیوں بناتے ہیں جس کے لئے آپ کو اللہ کو جواب دینا پڑےگا، جس پر معاویہ نے اسے چھوڑ دیا اور یہ السلام میں پہلی مرتبہ ہوا کہ حد جاری نہیں کی گئی۔



معاویہ اور اس کے ناصبی پیروکاروں نے بغض ِعلی بن ابی طالب (ع) میں سنت کو ترک کردیا


حج کر دوران تلبیہ یعنی لبیک اللھم لبیک کہنا سنت ہے لیکن جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ مولا علی بن ابی طالب (ع) اس سنت کا مکمل اتباع کیا کرتے تھے لہٰذا بےغیرت منافقین نے محض بغض ِعلی بنی ابی طالب (ص) کی وجہ سے اس سنت کو ترک کرڈالا جس کی بنیاد امام ِالنواصب معاویہ نے رکھی اور جسے اس کی ناصبی پیروکاروں نے پروان چڑھایا۔ امام نسائی نے نقل کیا ہے:

عن ‏ ‏سعيد بن جبير ‏ ‏قال ‏ ‏كنت مع ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏بعرفات ‏ ‏فقال ما لي لا أسمع الناس يلبون قلت يخافون من ‏ ‏معاوية ‏ ‏فخرج ‏ ‏ابن عباس ‏ ‏من فسطاطه فقال ‏ ‏لبيك اللهم لبيك لبيك فإنهم قد تركوا السنة من بغض ‏ ‏علي

سعید بن جبیر نے بیان کیا ہے ہم حضرت ابن عباس کے ہمراہ عرفہ میں موجود تھے کہ ابن عباس نے کہا: 'اے سعید، مجھے لوگ تلبیہ کہتے سنائی کیوں نہیں دے رہے؟'۔ میں نے جواب دیا کہ سب لوگ معاویہ سے خوفزدہ ہیں۔ پھر ابن عباس اپنے حجرے سے باہر نکلے اور پکارا: ' لبیک اللھم لبیک۔ ان لوگوں نے بغض ِعلی کی وجہ سے سنت کو ترک کردیا ہے'۔

  سنن نسائی، حدیث 2956

اس روایت کو سلفیوں کی امام ناصر الدین البانی نے سنن نسائی کے حاشیہ میں صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام خزیمہ نے اسے اپنی کتاب صحیح ابن خزیمہ، ج 4 ص 260 حدیث 2830 میں درج کیا ہے جس پر کتاب کا حاشیہ تحریر کرنے والا علامہ العظیمی نے اس کے صحیح ہونے کی مزید تصدیق کی ہے جبکہ امام حاکم نے اسے المسدراک، ج 1 ص 364 میں درج کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

امام بھقی نے سنن الکبرہ، ج 5 ص 113 میں اسی واقع کو دوسرے طریقہ سے بیان کیا ہے جہاں حضرت ابن عباس نے معاویہ والوں پر لعنت کی ہے:

پھر ابن عباس اپنے حجرے سے باہر آئے اور کہا معاویہ کے برخلاف کہا لبیک اللھم لبیک ۔ اللہ کی لعنت ہو ان لوگوں پر۔ ان لوگوں نے بغض ِعلی کی وجہ سے سنت کو ترک کردیا ہے۔

سنن نسائی کی شرح تحریر کرنے والے علامہ محمد بن عبدالہادی السندی نے لکھا ہے:

أي لأجل بغضه أي وهو كان يتقيد بالسنن فهؤلاء تركوها بغضا له

ایسا ان لوگوں کا بغض ِعلی کی وجہ سے تھا کیونکہ علی سنت سے منسلک تھے لہٰذا ان لوگوں نے بغض ِعلی کی وجہ سے سنت کو ترک کردیا۔



معاویہ اور اس کے ناصبی پیروکاروں نے بغض ِعلی (ع) کی وجہ سے نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ کہنا ترک کردیا


امام فخرالدین الرازی نے تفسیر کبیر، ج 1 ص 180-181 میں 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' کی شرح میں لکھتے ہیں:

امام شافعی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ معاویہ مدینہ آیا اور نماز کی امامت کی۔ نماز میں نہ ہی اس نے ' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' پڑھا اور نہ ہی رکوع و سجود کے دوران تکبیر پڑھی۔ جب معاویہ نے سلام پڑھ لیا تو مہاجرین و انصار چیخ اٹھے: ' اے معاویہ، تم نے نماز میں چور ی کی ہے۔ ' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' اور رکوع و سجود کے دوران تکبیر کہاں چلی گئی؟'۔ امام شافعی نے کہا ہے کہ معاویہ مضبوط حکمراں تھا اور فوجی اعتبار سے بھی بہت طاقتور تھا لہٰذا اگر مہاجرین و انصار میں سے تمام صحابہ کے درمیان 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' کا پڑھنا ایک متفق امر نہ ہوتا تو وہ معاویہ کے سامنے اس کی جانب سے 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' کو ترک کرنے پر احتجاج نہ کرتے۔

۔۔۔۔ بھقی نے سنن الکبیرہ میں ابو ھریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (ص) بلند آواز سے ' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' پڑھا کرتے تھے۔ ابن عباس، ابن عمر، ابن زبیر بھی بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ علی بن ابی طالب بھی نماز میں بلند آواز سے ' بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' پڑھا کرتے تھے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ جس کسی نے بھی دین میں علیؑ کی پیروی کی اس نے ہدایت حاصل کرلی اور اس کا ثبوت رسول اللہ (ص) کی وہ دعا ہے یعنی اے اللہ، جہاں جہاں علی رخ کرے حق کا رخ بھی وہیں کردے۔

۔۔۔۔ علی 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' بلند آواز سے پڑھنے میں بہت محتاط تھے لیکن جب بنی امیہ کی حکومت آئی تو وہ علی سے اختلاف کرنے کی غرض سے 'بسم اللہ الرحمٰن الرحیم' بلند آواز سے پڑھنے کو ترک کرنے میں بہت محتاط تھے اس لئے شائد انس ان لوگوں سے خوفزدہ تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان سے ایک ہی مسئلہ پر دو مختلف باتیں سامنے آئیں ہیں۔

 تفسیر کبیر، ج 1 ص 180-181


معاویہ شریعت میں ممنوع لباس زیب ِتن کرتا تھا حالانکہ اسے علم تھا کہ یہ حرام ہے


سنن ابو داود، کتاب 32، حدیث 4119:

مقدام بن معدی کرب معاویہ ابن ابنی سفیان کے پاس آئے تو معاویہ بن ابی سفیان نے المقدام بن معدی کرب سے کہا: کیا تمہیں علم ہے کہ الحسن بن علی وفات پا گئے ہیں؟ اس پر مقدام بن معدی کرب نے قرآنی آیت پڑھی انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایک آدمی نے کہا: تو کیا تم الحسن کے مرنے کو ایک مصیبت تصور کر رہے ہو ؟ اس پر مقدام نے جواب دیا: "میں اسے مصیبت کیسے نہ جانوں جبکہ رسول ص الحسن کو اپنی گود میں لیتے تھے اور کہتے تھے کہ الحسن مجھ سے ہے جبکہ الحسین علی سے ہیں۔
اس پر بنی اسد کے آدمی نے کہا: الحسن ایک جلتا ہوا انگارہ تھا جسے اللہ نے بجھا دیا۔ مقدام بن معدی نے کہا کہ آج میں تمہیں مزید غصہ دلاؤنگا اور تمہیں وہی سناؤنگا جو تمہیں ناپسند ہے۔ اے معاویہ، اگر میں سچ کہوں تو میرے سچے ہونے کی تصدیق کرنا اور اگر میں جھوٹ بولوں تو میرے جھوٹے ہونے کی تصدیق کرنا۔

معاویہ نے کہا ٹھیک ہے۔ مقدام نے کہا کہ میں تم سے اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ (ص) کو سونا پہننے سے منع کرتے نہیں سنا؟

معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے پھر سوال کیا کہ میں تم سے اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ (ص) کو ریشم پہننے سے منع کرتے نہیں سنا؟

معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے پھر سوال کیا کہ میں تم سے اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں کیا تمہیں علم نہیں کہ رسول اللہ (ص) نے شکاری جانور کی کھال پہننے اور اس پر سواری کرنے سے منع کیا ہے؟

معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے پھر سوال کیا کہ میں تم سے اللہ کے نام پر سوال کرتا ہوں کیا تمہیں علم نہیں کہ رسول اللہ (ص) نے شکاری جانور کی کھال پہننے اور اس پر سواری کرنے سے منع کیا ہے؟

معاویہ نے جواب دیا کہ ہاں۔ اس نے کہا، اللہ کی قسم میں نے یہ تمام چیزیں تمہارے گھر میں دیکھی ہیں۔

معاویہ نے جواب دیا، میں جانتا ہوں۔ میں تم سے نہیں بچ سکتا اے مقدام۔


No comments:

Post a Comment