Friday 11 November 2011

معاویہ باغی تھا


معاویہ باغی تھا



باغی کی تعریف


اہل ِسنت کی فقہ کی مشہور کتاب درالمختار، ص 113:

لغت میں بغاوت کا مطلب ہے طلب کرنا جبکہ عرف میں بغاوت کا مطلب ہے اس شئے کو طلب کرنا جو حلال نہ ہو۔ شرعی طور پر باغی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو امام حق کی اطاعت سے نکل جائیں

مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے تفہیم القرآن، ج 5 ص 80 میں لکھا:

ابن ھمام نے فتح القدیر شرح ھدایہ میں لکھا ہے کہ علماء کا اجماع ہے کہ باغی وہ ہے جو امام ِحق کی نافرمانی کرے۔ امام شافعی نے کتاب الام میں لکھا ہے کہ باغی وہ ہے جو عادل امام سے جنگ کرے۔ امام مالک نے کہا ہے کہ یہ فرض ہے کہ جو کوئی عادل امام کی مخالفت کرے اس سے جنگ کی جائے۔


باغی کی نماز ِجنازہ پڑھنے کی ممانعت


امام نووی کتاب المنہاج، ج 7 ص 47 میں رقمطراز ہیں:

وقال أبو حنيفة لا يصلى على محارب ولا على قتيل الفئة الباغية وقال قتادة لا يصلى على ولد الزنى

امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر باغی یا ڈکیت گروہ کا کوئی رکن مرجائے تو اس کی نماز ِجنازہ ادا نہیں کرنی چاہیے جبکہ قتادہ کا کہنا ہے کہ زنا سے پیدا ہوئے شخص کی بھی نماز ِجنازہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ 


تو معلوم ہوا کہ معاویہ کی نماز ِجنازہ تو اہل ِسنت کے کسی اصول کے مطابق بھی ادا نہیں ہوسکتی!

در المختار، ج 2 ص 282 میں ہم پڑھتے ہیں:

وهي فرض على كل مسلم مات، خلا) أربعة: (بغاة، وقطاع طريق) فلا يغسلوا، ولا يصلى عليهم

یہ فرض ہے کہ ہر مسلمان کے مرنے کے بعد اس کی نمازِجنازہ پڑھی جائے سوائے چار کے، یعنی باغی اور چور کے، نہ تو ان کو غسل دیا جانا چاہیئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ ادا کرنی چاہیئے۔ 



امام ِوقت کے خلاف بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے


قاضی شوکانی نیل الاوطار، ج 7 ص 198 میں لکھتے ہیں:

واعلم أن قتال البغاة جائز إجماعا كما حكي ذلك في البحر ولا يبعد أن يكون واجبا لقوله تعالى { فقاتلوا التي تبغي } وقد حكي في البحر أيضا عن العترة جميعا أن جهادهم أفضل من جهاد الكفار إلى ديارهم إذ فعلهم في دار الإسلام كفعل الفاحشة في المسجد

یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ باغی کے خلاف لڑنا جائز ہے جیسا کہ البحر میں درج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو ایسا کرنا واجب ہے: "فقاتلوا التي تبغي" اور البحر میں یہ بھی درج ہے کہ تمام عترت کا کہنا ہے کہ باغیوں سے لڑنا کفار سے ان کی زمین پر لڑنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ باغیوں کا مسلمانوں کی زمین پر بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے۔ 


یعنی معاویہ نے مسجد میں زنا کا ارتکاب کیا ہے!


معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے جنگ کی جو کہ امام و خلیفہ ِحق تھے


ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 7 ص 253 میں لکھتے ہیں:

وخرج علي إلى المسجد فصعد المنبر وعليه إزار وعمامة خز ونعلاه في يده، توكأ على قوسه، فبايعه عامة الناس

بوقت ِبیعت حضرت علی مسجد کی طرف گئے اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے اور عام لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کرلی۔ 


اہل ِسنت کی کتابوں سے باغی کی تعریف پیش کرنے کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) اک جائز امام و خلیفہ ِوقت تھے، عرض ہے کہ معاویہ کا شمار بھی باغیوں میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دور کے امام اور خلیفہ ِحق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کی ۔ پیش ِخدمت ہے اہل ِاسنت کی معتبر کتاب الاستیعاب، ج 3 ص 267 میں ابن عبدالبر لکھتے ہیں:

فحارب معاوية علياً خمس سنين

معاویہ نے علی سے پانچ سال تک جنگ کی


ابن اثیر نے اپنی کتاب اسدالغابہ فی معرفت الصحابہ، ج 1 ص 1027 میں تحریر کیا ہے:

ولم يبايع عليا وأظهر الطلب بدم عثمان فكان وقعة صفين بينه وبين علي

معاویہ نے علی کی بیعت نہ کی، پھر معاویہ نے قتل ِعثمان کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد معاویہ اور علی میں جنگ ِصفین ہوئی۔


امام النواصب ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 23 میں تحریر کیا ہے:

فلما امتنع معاوية من البيعة لعلي حتى يسلمه القتلة، كان من صفين ما قدمنا ذكره

معاویہ نے اس وقت تک علی کی بیعت سے انکار کردیا جب تک وہ قاتل ِعثمان ان کے حوالہ نا کردیں لہٰذا دونوں کے درمیان صفین کی جنگ ہوئی


امام جلال الدین سیوطی کتاب تاریخ خلفاء، ص 173 میں کہتے ہیں:

خرج معاوية على علي كما تقدم و تسمى بالخلافة ثم خرج على الحسن

معاویہ نے علی کے خلاف بغاوت کی اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزر کردیا اور پھر حسن کے خلاف بھی بغاوت کی۔ 



علمائے اہل ِسنت کا اقرار کہ معاویہ باغی و ظالم ہے


محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب تحفہءاثنا عشریہ، ص 181 میں بیان کرتے ہیں:

یہ معلوم ہونا چاہئے کہ تمام قطب ِاہل ِسنت کا اس پر اجماع ہے کہ معاویہ بن ابی صفیان، حضرت امیر کی امامت کے شروع سے ہی اور امام حسن سے صلح تک باغی رہا اور اپنے وقت کے امام کی اطاعت نہ کی۔
 تحفہءاثنا عشریہ، ص 181

اسی طرح کتاب کے صفحہ 11 پر ہم پڑھتے ہیں:

اصل فرقہ اہل ِسنت والجماعت کا تھا جو کہ صحابہ و تابعین کا تھا۔ وہ مہاجرین و انصار تھے جو کہ علی کے غلام تھے اور خلافت کے مددگار تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عثمان کی شہادت کے بعد مرتضیٰ امام برحق تھے اور تمام انسانوں پر ان کی اطاعت فرض تھی۔ علی اپنے دور میں سب سے زیادہ افضل تھے، جس کسی نے بھی خلافت کے معاملہ پر ان سے اختلاف کیا یا ان کی خلافت کو رد کیا وہ گناہگار اور باغی ہے۔ 
 تحفہءاثنا عشریہ، ص 11

امام سعد الدین تفتازانی نے اپنی کتاب شرح المقاصد، ج 2 ص 306 میں تحریر کیا ہے کہ:

اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ معاویہ اسلام کا پہلا باغی تھا

آئیے اب ہم اہل ِسنت میں فقہ کی چند بلند درجہ کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں معاویہ کا حوالہ واضح طریقے سے ایک ناجائز اور غاصب عامر کے طور پر کیا گیا ہے۔ اہل ِسنت کی فقہ کی مایہ ناز کتاب الہدایہ، ج 3 ص 133 اور اسی طرح الہدیہ کی مختلف شروح میں بھی جن میں فتح القدیر شرح ہدیہ، ج 16 ص 333 اور عنایہ شرح ہدایہ، ج 10 ص 217 شامل ہیں، ہم پڑھتے ہیں:

قوله ويجوز التقلد من السلطان الجائر كما يجوز من العادل لأن الصحابة رضي الله عنهم تقلدوه من معاوية رضي الله عنه والحق كان بيد علي رضي الله عنه في نوبته ، والتابعين تقلدوا من الحجاج

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور میں صحابہ حالانکہ حق تو علی کے ساتھ تھا۔ اسی طرح حالانکہ حجاج حق پر نہ تھا لیکن پھر بھی تابعین اس کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے۔ 


اس کے بعد ایک جملہ لکھا ہے:

هذا تصريح بجور معاوية

یہ معاویہ کے ظالم ہونے کا ثبوت ہے


اسی طرح امام علاوالدین ابی الحسن علی بن خلال الطارابلسی(متوفی 844 ھ) اپنی کتاب معین الاحکام، ص 3 پر لکھتے ہیں:

ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ، وأما العادل فلأن النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن قاضياً وولى عثمان بن أسد على مكة أميرا ، وأما الجائر فلأن الصحابة رضي الله عنهم تقلدوا الأعمال من معاوية بعد أن أظهر الخلاف مع علي رضي الله عنه وكان الحق مع علي

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے۔ جائز حکمراں (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ رسول اللہ نے معاذ کو قاضی کی حیثیت سے یمن بھیجا اور عثمان بن اساد کو مکہ کا گورنر مقرر کیا تھا جبکہ ناجائز حکمران (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ معاویہ کے علی سے اختلاف کے بعد صحابہ (رض) نے معاویہ سے عہدے تسلیم کیے۔ 


اسی طرح اہل ِسنت مسلک کی فقہ کی ایک اور بلند پایہ کتاب تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ج 4 ص 177 میں ہم پڑھتے ہیں:

ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ومن أهل البغي ) لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم تقلدوه من معاوية في نوبة علي ، وكان الحق بيد علي يومئذ ، وقد قال علي رضي الله تعالى عنه أخواننا بغوا علينا

ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض)نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا اور علی نے کہا کہ ہمارے بھائی ہمارے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔


اہل ِسنت میں فقہ کی چند نامور کتابوں میں سے ایک بحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج 6 ص 274 میں ہم پڑھتے ہیں:

(قوله ويجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر وأهل البغي) لأن الصحابة رضي الله تعالى عنهم تقلدوه من معاوية والحق كان بيد علي رضي الله تعالى عنه

ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض)نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا۔


آئیے اب اسی طرح ہم مسلک ِاہل ِسنت کے امام محمد بن حسن الشیبانی (متوفی 189 ھ) کے خیالات سے بھی آگاہ کردیں۔ علامہ عبدالقادر القرشی الحنفی نے اپنی کتاب الجواھر المضیہ، ج 2 ص 26 میں امام محمد بن حسن الشیبانی کا بیان یوں نقل کیا ہے:

"محمد" بن أحمد بن موسى بن داود الرازي البرزالي الفقيه القاضي الخازن. سمع عمه علي بن موسى العمي ومحمد بن أيوب الرازي. وولي القضاء بسمرقند. وسمع أهلها عليه. مات سنة إحدى وستين وثلاثمائة. قال السمعاني كان ثقة فاضلا وقال الحاكم كان فقيه أصحاب أبي حنيفة قال سمعت عمي سمعنا أبا سليمان الجوزجاني سمعت محمد بن الحسن يقول لو لم يقاتل معاوية عليا ظالما لهو متعديا باغيا كنا لا نهتدي لقتال أهل البغي

محمد بن احمد بن موسی بن داؤد الرازی البرذالی الفقیہ القاضی الخازن۔ انہوں نے اپنے چچا علی بن موسی اور محمد بن ایوب الرازی سے احادیث سنیں۔ وہ سمرقند کے قاضی مقرر کیے گئے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں سے احادیث سنیں۔ ان کی وفات 361 ہجری میں ہوئی۔ السمعانی کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ اور فاضل تھے۔ حاکم کا کہنا ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے ایک فقیہ تھے، انہوں نے کہا تھا کہ میں نے چچا ابو سلیمان الجوزجانی سے سنا ک انہوں نے محمد بن الحسن سے یہ کہتے سنا کہ اگر معاویہ جو کہ ظالم، جارح اور باغی تھا، علی کے خلاف جنگ نہ کرتا تو ہمیں ظالمین کے خلاف جنگ کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔

 الجواھر المضیہ، ج 2 ص 26

سلفی و اہل حدیث مسلک کے قاضی شوکانی کتاب نیل الاوطار، ج 7 ص 348 میں لکھتے ہیں:

قوله: أولاهما بالحق فيه دليل على أن عليا ومن معه هم المحقون ، ومعاوية ومن معه هم المبطلون ، وهذا أمر لا يمتري فيه منصف ، ولا يأباه إلا مكابر متعسف

حدیث "حق کا مستحق" میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ علی اور جو لوگ علی کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے جبکہ معاویہ اور جو لوگ معاویہ کے ساتھ تھے وہ باطل راہ پر تھے اور اس بات میں کوئی عادل شخص شک نہیں کرسکتا جبکہ صرف ہٹ دھرم لوگ ہی اس بات کا انکار کرینگے۔ 

 نیل الاوطار، ج 7 ص 348

اور اب پیش ِخدمت ہے اہل ِسنت کے نامور عالم ِدین علامہ عبدالکریم شہرستانی کو اپنی کتاب ملل و النحل، ج 1 ص 103 میں لکھتے ہیں:

ولا نقول في حق معاوية وعمرو بن العاص الا أنهما بغيا على الامام الحق فقاتلهم مقاتلة أهل البغي وأما أهل النهروان فهم الشراة المارقون عن الدين بخبر النبي صلى الله عليه وسلم ولقد كان رضي الله عنه على الحق في جميع أحواله يدور الحق معه حيث دار

ہم معاویہ اور عمروبن العاص کے متعلق کچھ نہیں کہتے سوائے اس کے کہ انہوں نے امام برحق کے خلاف جنگ کی لہٰذا علی نے ان لوگوں کو باغی تصور کرتے ہوئے ان سے جنگ کی۔ جبکہ نہروان والے لوگ شرانگیز اور مرتد تھے جیسا کہ رسول اللہ نے بتادیا تھا اور علی (رض)اپنے ان تمام مسائل میں حق پر تھے اور حق وہیں رخ کر رہا تھا جہاں جہاں علی رخ کرتے۔

 ملل و النحل، ج 1 ص 103


صحابی ِرسول حضرت عمار بن یاسر (رض) کی شہادت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ معاویہ باغی تھا


اب تک ہم نے تاریخی حقائق اور علمائے اہل ِسنت کی آراء کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ معاویہ باغی تھا۔ اب ہم حدیث ِرسول کی روشنی میں ثابت کرینگے کہ معاویہ اور اس کا ناصبی ٹولہ باغی تھا۔ رسول اللہ (ص) نے صحابی ِجلیل حضرت عمار یاسر(رض) جن کا پاؤں کی دھول کو ہر شیعہ اپنی آنکھ کا سرما سمجھتا ہے، کے متعلق فرمایا:

وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ابن عون، عن الحسن، عن أمه، عن أم سلمة، قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تقتل عمارا الفئة الباغية ‏"

ام المومنین حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کریگا۔ 

 صحیح مسلم، کتان الفتن، حدیث 7508

رسول اللہ (ص) کی یہ مشہور پیشن گوئی اس بات کو واضح کررہی ہے کہ حضرت عمار یاسر (رض) کے قاتلان باغی تھے۔ حضرت عمار یاسر (رض) کا جنگ صفین کے دوران معاویہ کی فوج کے ہاتھوں قتل ہونا اس بات پر مہر ثبت کردیتا ہے کہ معاویہ اینڈ کمپنی باغی تھی۔ 

متعدد صحابہ و تابعین جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کی جنگ میں تذبذب کا شکار تھے، حضرت عمار یاسر کو یہ معلوم کرنے کے لئے علامت قرار دے دیا تھا کہ دونوں میں سے حق پر کون ہے باطل پر کون۔

ابوبکر جصاص اھکما القرآن میں لکھتے ہیں:

حضرت علی بن وابی طالب نے باغی گروہ کے خلاف تلوار سے جنگ کی اور ان کے ساتھ وہ اکابر صحابہ اور اہل ِبدر تھے جن کا مرتبہ سب جانتے ہیں۔ اس جنگ میں وہ حق پر تھے اور اس میں اس باغی گروہ کے سوا جو ان سے برسر ِجنگ تھا اور کوئی بھی ان سے اختلاف نہ رکھتا تھا۔ مزید براں خود نبی (ص) نے عمار (رض) سے فرمایا تھا کہ تم کو ایک باغی گروہ قتل کریگا۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جو تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور عام طور پر صحیح مانی گئی ہے حتیٰ کہ معاویہ سے بھی جب عبداللہ ابن عمرو بن العاص نے اسے بیان کیا تو وہ اس کا انکار نہ کرسکے البتہ انہوں نے اس کی یہ تاویل پیش کی عمار کو اس نے قتل کیا ہے جو اس کو ہمارے نیزوں کے آگے لے آیا۔ 

 خلافت و ملوکیت، ص 137

اب بھی کوئی ابہام رہ گیا ہو تو ہم نواصب کے امام ابن تیمیہ کی فتویٰ ہی پیش کیے دیتے ہیں جس میں انہوں نے واضح لکھا ہے کہ حضرت عمار (رض) کے قاتل لوگوں کو جہنم کی طرف بلارہے تھے۔ مجموع الفتاوی، ج 3 ص 437 میں وہ لکھتے ہیں:

( ورواه مسلم أيضا عن أم سلمه عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال ( تقتل عمارا الفئة الباغية ( وهذا أيضا يدل على صحة أمامة على ووجوب طاعته وأن الداعى إلى طاعته داع إلى الجنة والداعى إلى مقاتلته داع إلى النار وإن كان متأولا

یہ صحیح مسلم میں درج ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کریگا اور یہ علی کی امامت کے صیح ہونے کا اور اس بات کا کہ علی کی اطاعت واجب تھی ثبوت ہے اور وہ لوگ جو علی کی اطاعت کی جانب بلا رہے تھے وہ جنت کی جانب بلا رہے تھے جبکہ وہ جو علی سے جنگ کررہے تھے وہ جہنم کی جانب بلا رہے تھے حاللانکہ انہوں نے تاویل کی۔



علی (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ کرنا لوگوں پر فرض تھا


محبان ِمعاویہ یعنی نواصب کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہ تھا کہ معاویہ اور حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے درمیان جنگ میں کسی ایک کا ساتھ دیا جاتا۔ لیکن نواصب کہ اس بہانے سے ہوا نکل جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے پیشن گوئی کردی تھی کہ:

اے علی، بہت جلد ایک باغی گروہ تم سے جنگ کریگا اور تم حق پر ہوگے۔ جو کوئی بھی تمہاری نصرت نہ کرے وہ مجھ سے نہیں۔ 
کنزالعمال، ج حدیث 32970


معاویہ جیسے ناکثین و قاسطین کے متعلق رسول(ص) پیشن گوئی کر گئے تھے کہ ان سے لڑنا فرض ہے


نواصب چاہے اپنے اجداد کا دفاع کرنا کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کرلیں وہ کبھی معاویہ کے سنگین جارئم و گناہوں پر پردہ کبھی نہیں ڈال سکتے کیونکہ معاویہ کے گناہوں کی تعداد و نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔ اور خصوصا ً معاویہ کی بغاوت کے متعلق ناصبی ٹولہ جتنی تاویلیں پیش کرلے، رسول اللہ (ص)کی احادیث کے سامنے یہ ساری تاویلیں ایسی ہی ثابت ہوتی ہیں جیسے لوہے کی ڈھال پر لکڑی کے بنے تیر مارنا۔ رسول اللہ(ص) معاویہ اور اس کی باغی کمپنی کے متعلق پہلے ہی بیان فرما گئے تھے۔ ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 1 ص 801 میں نقل کیا ہے:

عن أبي سعيد الخدري قال : أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتال الناكثين والقاسطين والمارقين فقلنا : يا رسول الله صلى الله عليه و سلم أمرتنا بقتال هؤلاء فمع من فقال : مع علي بن أبي طالب معه يقتل عمار بن ياسر

ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ہمیں ناکثین(بیعت توڑدینے والے)، قاسطین (جو بیعت دینے سے گریز کریں) اور مارقین (یعنی خوارج) سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (ص)، آپ نے ہمیں ان لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم تو دیا ہے لیکن کس کے ہمراہ؟ رسول اللہ (ص) نے جواب دیا علی بن ابی طالب کے ہمراہ اور عمار بن یاسر اس میں قتل ہوجاینگے۔ 


اسی کے آگے ہم پڑھتے ہیں:

عن مخنف بن سليم قال : أتينا أبا أيوب الأنصاري فقلنا : قاتلت بسيفك المشركين مع رسول الله صلى الله عليه و سلم ثم جئت تقاتل المسلمين قال : أمرني رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتل الناكثين والقاسطين والمارقين

مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ ہم ابو ایوب النصاری(رض) کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے رسول اللہ (ص)کی ساتھ مشرکین سے جنگ کی اور اب آپ مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ (ص) نے ناکثین ، قاسطین اور مارقین کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔


اسی طرح امام النواصب ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے:

عن أحمد بن حفص البغدادي عن سليمان بن يوسف، عن عبيد الله بن موسى، عن فطر، عن حكيم بن جبير، عن إبراهيم، عن علقمة عن علي قال: أمرت بقتال الناكثين والقاسطين والمارقين

حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے حکم ہے کہ میں ناکثین ، قاسطین اور مارقین کو قتل کروں۔ 


یہی وجہ ہے کہ شیخ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب سیئول، ص 68 میں لکھا ہے:

فبدأ علي بقتال الناكثين وهم أصحاب الجمل وثنى بقتال القاسطين وهم أصحاب معاوية

علی نے ناکثین یعنی جنگ ِجمل والے لوگوں سے جنگ کر کے ابتداء کی اور اس کے بعد علی نے قاسطین یعنی معاویہ کے ساتھیوں سے جنگ کی۔ 



عبد اللہ ابن عمر کی تمنا رہ گئ کہ وہ علی کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں نہ تھے


حضرت عمر کے بیٹے اور مشہور صحابی عبداللہ ابن عمر کی تو آرزو رہ گئی کہ وہ علی بن ابی طالب (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے۔ علامہ ابن عبدالبر نے الاستیعاب، ج 3 ص 83 اور امام بدرالدین الاعینی نے عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری، ج 11 ص 349 میں عبد اللہ ابن عمر کا یہ بیان نقل کیا ہے:

مجھے غم ہے کہ میں نے علی کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہ لیا۔ ابی بکر بن ابی جھم نے کہا کہ عبد اللہ ابن عمر کا بیان ہے کہ مجھے اور کسی بات کا اتنا دکھ نہیں جتنا اس بات کا کہ میں نے علی کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں حصہ نہ لیا۔ 


بزرگ صحابہ نے علی بن ابی طالب (ع) کی امامت میں جنگ میں حصہ لیا


معاویہ کو باغی کی تعریف میں لانے سے بچانے کی غرض سے نواصب یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین و انصار نے جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مہاجرین و انصار میں سے تمام بزرگ ہستیاں مولا علی بن ابی طالب (ع)کے ہمراہ باغیوں سے لڑی تھیں۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنی شیعہ مخالف کتاب تحفہ اثنا عشری، ص 18 میں 37 ہجری یعنی جنگ صفین کے حوالے سے لکھتے ہیں:

سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی

یہی نہیں بلکہ مولا علی بن ابی طالب (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہید ہونے والے بزرگ صحابہ میں خزیمہ بن ثابت شامل تھے (دیکھئے اہل ِسنت کی صحابہ کی زندگیوں پر لکھی گئی کتابیں جیسے الاستیعاب، ج 1 ص 347، اسد لغابہ، ج 2 ص 113)۔ اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) کی محبت کے لئے مشہور حضرت اویس قرنی بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہیں (اسد لغابہ، ج 1 ص 180، الاستیعاب، ج 1 ص 123)۔ معروف صحابہ ِاکرام میں جو مولا علی (ع) کے علم تلے لڑ کر شہید ہوئے ان میں حضرت ھشام ابن عتبہ بھی شامل تھے جن کی شہادت کے بعد حضرت طفیل (رض) نے کہا تھا:

تم شہید ہوئے کیونکہ تم نے سنت کے دشمن سے جنگ کی
اسد الغابہ، ج 5 ص 277

اور ہم الاستیعاب، ج 3 ص 229 میں یہ بھی پڑھتے ہیں کہ:

حضرت عبد الرحمان بن ابزی نے کہا ہے کہ صفین میں علی کے ہمراہ بیت الرضوان میں حصہ لینے والے 800 صحابہ نے حصہ لیا

No comments:

Post a Comment