معاویہ باغی تھا
باغی کی تعریف
اہل ِسنت کی فقہ کی مشہور کتاب درالمختار، ص 113:


مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے تفہیم القرآن، ج 5 ص 80 میں لکھا:


باغی کی نماز ِجنازہ پڑھنے کی ممانعت
امام نووی کتاب المنہاج، ج 7 ص 47 میں رقمطراز ہیں:

امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر باغی یا ڈکیت گروہ کا کوئی رکن مرجائے تو اس کی نماز ِجنازہ ادا نہیں کرنی چاہیے جبکہ قتادہ کا کہنا ہے کہ زنا سے پیدا ہوئے شخص کی بھی نماز ِجنازہ نہیں پڑھنی چاہئے۔

تو معلوم ہوا کہ معاویہ کی نماز ِجنازہ تو اہل ِسنت کے کسی اصول کے مطابق بھی ادا نہیں ہوسکتی!
در المختار، ج 2 ص 282 میں ہم پڑھتے ہیں:

یہ فرض ہے کہ ہر مسلمان کے مرنے کے بعد اس کی نمازِجنازہ پڑھی جائے سوائے چار کے، یعنی باغی اور چور کے، نہ تو ان کو غسل دیا جانا چاہیئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ ادا کرنی چاہیئے۔

امام ِوقت کے خلاف بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے
قاضی شوکانی نیل الاوطار، ج 7 ص 198 میں لکھتے ہیں:

یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ باغی کے خلاف لڑنا جائز ہے جیسا کہ البحر میں درج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو ایسا کرنا واجب ہے: "فقاتلوا التي تبغي" اور البحر میں یہ بھی درج ہے کہ تمام عترت کا کہنا ہے کہ باغیوں سے لڑنا کفار سے ان کی زمین پر لڑنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ باغیوں کا مسلمانوں کی زمین پر بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے۔

یعنی معاویہ نے مسجد میں زنا کا ارتکاب کیا ہے!
معاویہ نے علی بن ابی طالب (ع) سے جنگ کی جو کہ امام و خلیفہ ِحق تھے
ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج 7 ص 253 میں لکھتے ہیں:

بوقت ِبیعت حضرت علی مسجد کی طرف گئے اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے اور عام لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کرلی۔

اہل ِسنت کی کتابوں سے باغی کی تعریف پیش کرنے کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) اک جائز امام و خلیفہ ِوقت تھے، عرض ہے کہ معاویہ کا شمار بھی باغیوں میں ہی ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنے دور کے امام اور خلیفہ ِحق کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کی ۔ پیش ِخدمت ہے اہل ِاسنت کی معتبر کتاب الاستیعاب، ج 3 ص 267 میں ابن عبدالبر لکھتے ہیں:

معاویہ نے علی سے پانچ سال تک جنگ کی

ابن اثیر نے اپنی کتاب اسدالغابہ فی معرفت الصحابہ، ج 1 ص 1027 میں تحریر کیا ہے:

معاویہ نے علی کی بیعت نہ کی، پھر معاویہ نے قتل ِعثمان کا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد معاویہ اور علی میں جنگ ِصفین ہوئی۔

امام النواصب ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ، ج 8 ص 23 میں تحریر کیا ہے:

معاویہ نے اس وقت تک علی کی بیعت سے انکار کردیا جب تک وہ قاتل ِعثمان ان کے حوالہ نا کردیں لہٰذا دونوں کے درمیان صفین کی جنگ ہوئی

امام جلال الدین سیوطی کتاب تاریخ خلفاء، ص 173 میں کہتے ہیں:

معاویہ نے علی کے خلاف بغاوت کی اور اپنے آپ کو خلیفہ نامزر کردیا اور پھر حسن کے خلاف بھی بغاوت کی۔

علمائے اہل ِسنت کا اقرار کہ معاویہ باغی و ظالم ہے
محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب تحفہءاثنا عشریہ، ص 181 میں بیان کرتے ہیں:



اسی طرح کتاب کے صفحہ 11 پر ہم پڑھتے ہیں:



امام سعد الدین تفتازانی نے اپنی کتاب شرح المقاصد، ج 2 ص 306 میں تحریر کیا ہے کہ:


آئیے اب ہم اہل ِسنت میں فقہ کی چند بلند درجہ کتابوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں معاویہ کا حوالہ واضح طریقے سے ایک ناجائز اور غاصب عامر کے طور پر کیا گیا ہے۔ اہل ِسنت کی فقہ کی مایہ ناز کتاب الہدایہ، ج 3 ص 133 اور اسی طرح الہدیہ کی مختلف شروح میں بھی جن میں فتح القدیر شرح ہدیہ، ج 16 ص 333 اور عنایہ شرح ہدایہ، ج 10 ص 217 شامل ہیں، ہم پڑھتے ہیں:

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ معاویہ کے دور میں صحابہ حالانکہ حق تو علی کے ساتھ تھا۔ اسی طرح حالانکہ حجاج حق پر نہ تھا لیکن پھر بھی تابعین اس کی جانب سے قاضی مقرر ہوئے۔

اس کے بعد ایک جملہ لکھا ہے:

یہ معاویہ کے ظالم ہونے کا ثبوت ہے

اسی طرح امام علاوالدین ابی الحسن علی بن خلال الطارابلسی(متوفی 844 ھ) اپنی کتاب معین الاحکام، ص 3 پر لکھتے ہیں:

ایک ناجائز حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی عادل حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے۔ جائز حکمراں (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ رسول اللہ نے معاذ کو قاضی کی حیثیت سے یمن بھیجا اور عثمان بن اساد کو مکہ کا گورنر مقرر کیا تھا جبکہ ناجائز حکمران (کے سلسلے میں جائز ہے) کیونکہ معاویہ کے علی سے اختلاف کے بعد صحابہ (رض) نے معاویہ سے عہدے تسلیم کیے۔

اسی طرح اہل ِسنت مسلک کی فقہ کی ایک اور بلند پایہ کتاب تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق، ج 4 ص 177 میں ہم پڑھتے ہیں:

ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض)نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا اور علی نے کہا کہ ہمارے بھائی ہمارے خلاف بغاوت کررہے ہیں۔

اہل ِسنت میں فقہ کی چند نامور کتابوں میں سے ایک بحرالرائق شرح کنزالدقائق، ج 6 ص 274 میں ہم پڑھتے ہیں:

ایک ناجائز یا جائز یا پھر باغی حکمراں کی جانب سے قاضی کے عہدے پر فائز ہونا جائز ہے کیونکہ صحابہ (رض)نے علی کی خلافت کے زمانے میں معاویہ سے یہ عہدہ قبول کیا جبکہ حق علی کے ساتھ تھا۔

آئیے اب اسی طرح ہم مسلک ِاہل ِسنت کے امام محمد بن حسن الشیبانی (متوفی 189 ھ) کے خیالات سے بھی آگاہ کردیں۔ علامہ عبدالقادر القرشی الحنفی نے اپنی کتاب الجواھر المضیہ، ج 2 ص 26 میں امام محمد بن حسن الشیبانی کا بیان یوں نقل کیا ہے:

محمد بن احمد بن موسی بن داؤد الرازی البرذالی الفقیہ القاضی الخازن۔ انہوں نے اپنے چچا علی بن موسی اور محمد بن ایوب الرازی سے احادیث سنیں۔ وہ سمرقند کے قاضی مقرر کیے گئے اور انہوں نے وہاں کے لوگوں سے احادیث سنیں۔ ان کی وفات 361 ہجری میں ہوئی۔ السمعانی کا کہنا ہے کہ وہ ثقہ اور فاضل تھے۔ حاکم کا کہنا ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے ایک فقیہ تھے، انہوں نے کہا تھا کہ میں نے چچا ابو سلیمان الجوزجانی سے سنا ک انہوں نے محمد بن الحسن سے یہ کہتے سنا کہ اگر معاویہ جو کہ ظالم، جارح اور باغی تھا، علی کے خلاف جنگ نہ کرتا تو ہمیں ظالمین کے خلاف جنگ کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔


سلفی و اہل حدیث مسلک کے قاضی شوکانی کتاب نیل الاوطار، ج 7 ص 348 میں لکھتے ہیں:

حدیث "حق کا مستحق" میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ علی اور جو لوگ علی کے ساتھ تھے وہ حق پر تھے جبکہ معاویہ اور جو لوگ معاویہ کے ساتھ تھے وہ باطل راہ پر تھے اور اس بات میں کوئی عادل شخص شک نہیں کرسکتا جبکہ صرف ہٹ دھرم لوگ ہی اس بات کا انکار کرینگے۔


اور اب پیش ِخدمت ہے اہل ِسنت کے نامور عالم ِدین علامہ عبدالکریم شہرستانی کو اپنی کتاب ملل و النحل، ج 1 ص 103 میں لکھتے ہیں:

ہم معاویہ اور عمروبن العاص کے متعلق کچھ نہیں کہتے سوائے اس کے کہ انہوں نے امام برحق کے خلاف جنگ کی لہٰذا علی نے ان لوگوں کو باغی تصور کرتے ہوئے ان سے جنگ کی۔ جبکہ نہروان والے لوگ شرانگیز اور مرتد تھے جیسا کہ رسول اللہ نے بتادیا تھا اور علی (رض)اپنے ان تمام مسائل میں حق پر تھے اور حق وہیں رخ کر رہا تھا جہاں جہاں علی رخ کرتے۔


صحابی ِرسول حضرت عمار بن یاسر (رض) کی شہادت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ معاویہ باغی تھا
اب تک ہم نے تاریخی حقائق اور علمائے اہل ِسنت کی آراء کی روشنی میں یہ ثابت کیا کہ معاویہ باغی تھا۔ اب ہم حدیث ِرسول کی روشنی میں ثابت کرینگے کہ معاویہ اور اس کا ناصبی ٹولہ باغی تھا۔ رسول اللہ (ص) نے صحابی ِجلیل حضرت عمار یاسر(رض) جن کا پاؤں کی دھول کو ہر شیعہ اپنی آنکھ کا سرما سمجھتا ہے، کے متعلق فرمایا:

ام المومنین حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کریگا۔


رسول اللہ (ص) کی یہ مشہور پیشن گوئی اس بات کو واضح کررہی ہے کہ حضرت عمار یاسر (رض) کے قاتلان باغی تھے۔ حضرت عمار یاسر (رض) کا جنگ صفین کے دوران معاویہ کی فوج کے ہاتھوں قتل ہونا اس بات پر مہر ثبت کردیتا ہے کہ معاویہ اینڈ کمپنی باغی تھی۔

ابوبکر جصاص اھکما القرآن میں لکھتے ہیں:
حضرت علی بن وابی طالب نے باغی گروہ کے خلاف تلوار سے جنگ کی اور ان کے ساتھ وہ اکابر صحابہ اور اہل ِبدر تھے جن کا مرتبہ سب جانتے ہیں۔ اس جنگ میں وہ حق پر تھے اور اس میں اس باغی گروہ کے سوا جو ان سے برسر ِجنگ تھا اور کوئی بھی ان سے اختلاف نہ رکھتا تھا۔ مزید براں خود نبی (ص) نے عمار (رض) سے فرمایا تھا کہ تم کو ایک باغی گروہ قتل کریگا۔ یہ ایک ایسی خبر ہے جو تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور عام طور پر صحیح مانی گئی ہے حتیٰ کہ معاویہ سے بھی جب عبداللہ ابن عمرو بن العاص نے اسے بیان کیا تو وہ اس کا انکار نہ کرسکے البتہ انہوں نے اس کی یہ تاویل پیش کی عمار کو اس نے قتل کیا ہے جو اس کو ہمارے نیزوں کے آگے لے آیا۔


اب بھی کوئی ابہام رہ گیا ہو تو ہم نواصب کے امام ابن تیمیہ کی فتویٰ ہی پیش کیے دیتے ہیں جس میں انہوں نے واضح لکھا ہے کہ حضرت عمار (رض) کے قاتل لوگوں کو جہنم کی طرف بلارہے تھے۔ مجموع الفتاوی، ج 3 ص 437 میں وہ لکھتے ہیں:

یہ صحیح مسلم میں درج ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کریگا اور یہ علی کی امامت کے صیح ہونے کا اور اس بات کا کہ علی کی اطاعت واجب تھی ثبوت ہے اور وہ لوگ جو علی کی اطاعت کی جانب بلا رہے تھے وہ جنت کی جانب بلا رہے تھے جبکہ وہ جو علی سے جنگ کررہے تھے وہ جہنم کی جانب بلا رہے تھے حاللانکہ انہوں نے تاویل کی۔

علی (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ کرنا لوگوں پر فرض تھا
محبان ِمعاویہ یعنی نواصب کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہ تھا کہ معاویہ اور حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے درمیان جنگ میں کسی ایک کا ساتھ دیا جاتا۔ لیکن نواصب کہ اس بہانے سے ہوا نکل جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے پیشن گوئی کردی تھی کہ:


کنزالعمال، ج حدیث 32970
معاویہ جیسے ناکثین و قاسطین کے متعلق رسول(ص) پیشن گوئی کر گئے تھے کہ ان سے لڑنا فرض ہے
نواصب چاہے اپنے اجداد کا دفاع کرنا کی کتنی ہی کوششیں کیوں نہ کرلیں وہ کبھی معاویہ کے سنگین جارئم و گناہوں پر پردہ کبھی نہیں ڈال سکتے کیونکہ معاویہ کے گناہوں کی تعداد و نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔ اور خصوصا ً معاویہ کی بغاوت کے متعلق ناصبی ٹولہ جتنی تاویلیں پیش کرلے، رسول اللہ (ص)کی احادیث کے سامنے یہ ساری تاویلیں ایسی ہی ثابت ہوتی ہیں جیسے لوہے کی ڈھال پر لکڑی کے بنے تیر مارنا۔ رسول اللہ(ص) معاویہ اور اس کی باغی کمپنی کے متعلق پہلے ہی بیان فرما گئے تھے۔ ابن اثیر نے اسدالغابہ، ج 1 ص 801 میں نقل کیا ہے:

ابو سعید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ہمیں ناکثین(بیعت توڑدینے والے)، قاسطین (جو بیعت دینے سے گریز کریں) اور مارقین (یعنی خوارج) سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (ص)، آپ نے ہمیں ان لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم تو دیا ہے لیکن کس کے ہمراہ؟ رسول اللہ (ص) نے جواب دیا علی بن ابی طالب کے ہمراہ اور عمار بن یاسر اس میں قتل ہوجاینگے۔

اسی کے آگے ہم پڑھتے ہیں:

مخنف بن سلیم سے روایت ہے کہ ہم ابو ایوب النصاری(رض) کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے رسول اللہ (ص)کی ساتھ مشرکین سے جنگ کی اور اب آپ مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ (ص) نے ناکثین ، قاسطین اور مارقین کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اسی طرح امام النواصب ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے:

حضرت علی نے فرمایا کہ مجھے حکم ہے کہ میں ناکثین ، قاسطین اور مارقین کو قتل کروں۔

یہی وجہ ہے کہ شیخ محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب سیئول، ص 68 میں لکھا ہے:

علی نے ناکثین یعنی جنگ ِجمل والے لوگوں سے جنگ کر کے ابتداء کی اور اس کے بعد علی نے قاسطین یعنی معاویہ کے ساتھیوں سے جنگ کی۔

عبد اللہ ابن عمر کی تمنا رہ گئ کہ وہ علی کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں نہ تھے
حضرت عمر کے بیٹے اور مشہور صحابی عبداللہ ابن عمر کی تو آرزو رہ گئی کہ وہ علی بن ابی طالب (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیتے۔ علامہ ابن عبدالبر نے الاستیعاب، ج 3 ص 83 اور امام بدرالدین الاعینی نے عمدۃالقاری شرح صحیح بخاری، ج 11 ص 349 میں عبد اللہ ابن عمر کا یہ بیان نقل کیا ہے:


بزرگ صحابہ نے علی بن ابی طالب (ع) کی امامت میں جنگ میں حصہ لیا
معاویہ کو باغی کی تعریف میں لانے سے بچانے کی غرض سے نواصب یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین و انصار نے جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ مہاجرین و انصار میں سے تمام بزرگ ہستیاں مولا علی بن ابی طالب (ع)کے ہمراہ باغیوں سے لڑی تھیں۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنی شیعہ مخالف کتاب تحفہ اثنا عشری، ص 18 میں 37 ہجری یعنی جنگ صفین کے حوالے سے لکھتے ہیں:


یہی نہیں بلکہ مولا علی بن ابی طالب (ع) کے ہمراہ باغیوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہید ہونے والے بزرگ صحابہ میں خزیمہ بن ثابت شامل تھے (دیکھئے اہل ِسنت کی صحابہ کی زندگیوں پر لکھی گئی کتابیں جیسے الاستیعاب، ج 1 ص 347، اسد لغابہ، ج 2 ص 113)۔ اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) کی محبت کے لئے مشہور حضرت اویس قرنی بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہیں (اسد لغابہ، ج 1 ص 180، الاستیعاب، ج 1 ص 123)۔ معروف صحابہ ِاکرام میں جو مولا علی (ع) کے علم تلے لڑ کر شہید ہوئے ان میں حضرت ھشام ابن عتبہ بھی شامل تھے جن کی شہادت کے بعد حضرت طفیل (رض) نے کہا تھا:


اسد الغابہ، ج 5 ص 277
اور ہم الاستیعاب، ج 3 ص 229 میں یہ بھی پڑھتے ہیں کہ:


No comments:
Post a Comment